شادی کی رسمیں

میرے گاؤں میں چند رسوم رائج ہیں جو میرے خیال میں درست نہیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم قرآن و حدیث اور شریعت کی روشنی میں ان پر مدلل اور مفصل اظہار خیال فرما دیں : ۱- شادی کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے شادی کی تاریخ سے ایک یا دو روز پہلے گاؤں والوں کو گھر گھر کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ ۲- شادی کے موقع پر لڑکے والے لڑکی والوں سے کھانے کے لیے خاص خاص چیزوں کی فرمائش، بل کہ حکم صادر کرتے ہیں ۔ اس طرح کے کھانے کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ فقیروں کا کھانا ہے۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ ان رسوم کا شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
جواب

اللہ تعالیٰ نے اسلام کو آسان، قابل ِ عمل اور فطرت ِ انسانی سے ہم آہنگ دین بنایا تھا، لیکن ہم مسلمانوں نے طرح طرح کی غیر شرعی رسوم ایجاد کرکے اسے مشکل اور بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل ِ عمل بنا دیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی ایک صفت قرآن میں یہ بیان کی گئی ہے کہ آپؐ نے لوگوں پر سے وہ بوجھ اتار دیے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھول دیں جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے: یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط (الاعراف: ۱۵۷) لیکن ہم نے پھر اپنے وہ بوجھ لاد لیے ہیں اور خود کو ان بیڑیوں میں جکڑ لیا ہے۔
مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو وہ سیکڑوں ایسی رسوم میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ بچے کی پیدائش سے لے کر وفات تک، قدم قدم پر، طرح طرح کی رسمیں انجام دی جاتی ہیں ۔ ہزاروں لاکھوں روپیہ لٹایا جاتا ہے۔ رقم کا بر وقت انتظام نہ ہوسکے تو ادھر ادھر سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر کوئی رسم چھوٹنے نہیں پاتی۔ ان رسموں میں سے بہت سی شادی بیاہ کے موقع پر انجام دی جاتی ہیں ۔ ان میں سے بعض کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔
نکاح کے موقع پر پیش کیے جانے والے خطبے میں قرآن ِ کریم کی تین آیتیں پڑھی جاتی ہیں : النساء: ۱، آل عمران: ۱۰۲، الاحزاب: ۷۰۔ اس موقع پر ان آیتوں کے انتخاب میں بڑی معنویت پائی جاتی ہے۔ ان میں چار مرتبہ اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ (اپنے رب سے ڈرو) یَا اِتَّقُوا اللّٰہَ (اللہ سے ڈرو) کے الفاظ آئے ہیں ۔ شادی کا موقع انتہائی خوشی و مسرت کا ہوتا ہے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر کوئی شخص آپے سے باہر ہوجائے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرجائے۔ اس لیے بار بار اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی۔ یہ آیتیں ہر نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ، تقریبات ِ نکاح میں موجود ہر شخص انھیں سنتا ہے، لیکن کسی کو تنبہ نہیں ہوتا کہ ذاتی خواہشات کی تکمیل اور رسم و رواج کی پاس داری میں وہ اللہ اور رسول کے کس کس حکم کو پامال کر رہا ہے۔
شادی سے پہلے لڑکے والوں کی طرف سے کھانا تقسیم کرنا، لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا، بارات کی شکل میں پوری فوج کو لڑکی والوں کے یہاں لے جانا اور باراتیوں کی خاطر مدارات کے لیے ان سے کھانے کی خاص خاص چیزوں کی فرمائش کرنا، یہ سارے کام شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ولیمے کا حکم دیا ہے، مگر ساتھ ہی ولیمے کی ایسی دعوت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، جس میں صرف مال داروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے۔