طبی اخلاقیات

طب کے میدان میں ڈاکٹروں ، اسپتالوں ، تشخیصی مراکز (لیباریٹری وغیرہ) اور دوا ساز کمپنیوں کا طرز عمل کچھ یوں ہے: (۱) ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کو مریض حوالے(Refer)کرتا ہے، مگر اس وقت جب دوسرا ڈاکٹر پہلے ڈاکٹر یعنی حوالے کرنے والے کو اپنے بل کا ۲۰ سے ۳۰ فی صد دے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے کیس ریفر نہیں کیے جاتے، بل کہ کئی بار تو اس میں مقابلے کی کیفیت ہوتی ہے، یعنی جو زیادہ دیتا ہے اسے مریض ریفر کیے جاتے ہیں ۔ یہ مارکیٹ کا تقریباً طے شدہ اصول ہے اور اس کی ادائی باضابطہ چیک سے ہوتی ہے۔ (۲) تشخیصی مراکز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک ڈاکٹر مخصوص مرکز سے ہی اپنے مریضوں کے ٹسٹ کرواتا ہے، جہاں سے اسے بل کا طے شدہ حصہ ملتاہے، جو کبھی کبھی ۴۰ فی صد تک ہوتا ہے۔ اس میں عموماً مریض سے جو کچھ لیا جاتا ہے وہ یکساں رہتاہے۔ ڈاکٹر لے یا نہ لے اور گاہے ڈاکٹر کے کہنے پر کچھ تخفیف بھی کردی جاتی ہے، جس سے مریض کو تھوڑا فائدہ ہوتا ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ (۳) دوا ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کو بڑھا وا دینے کی خاطر اطباء کو کچھ مراعات (مثلاً تحفے جو معمولی سے لے کر کار، بیرون ملک سفر اور دوسرے خاطر خواہ فوائد، جو تجارتی زبان میں Incentivesکہلاتے ہیں ) دیتی ہیں ۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ، بل کہ اس بات کے لیے کمپنیوں میں باضابطہ فنڈ ہوتا ہے۔ (۴) پھر کچھ کمپنیاں کھلے طور سے یہ کہتی ہیں کہ جتنا زیادہ ہماری مصنوعات کو بڑھاوا دیں گے اسی قدر آپ کو زیادہ سے زیادہ Incentive دیا جائے گا۔ (۵) کچھ اطبا دوا ساز کمپنیوں سے اپنی مشتہری کا کام کرواتے ہیں ، جس پر تمام پیسہ کمپنی خرچ کرتی ہے۔ اس کے عوض ڈاکٹر اس مخصوص کمپنی کی مصنوعات تجویز کرنے میں امتیاز سے کام لیتے ہیں ۔ ان حالات کے مد ِ نظر درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں : ٭ کیا اس طرح کا لین دین، جو ڈاکٹروں کے مابین ہو، یا تشخیصی مراکز اور اطباء کے مابین ہو، جائز ہے یا نہیں ؟ ٭ کیا دواساز کمپنیوں سے مراعات لی جاسکتی ہیں ؟ ٭ کیا دوا ساز کمپنی سے اپنے کاروبار / کسب کے بڑھاوے کے لیے مشتہری کا کام لیا جاسکتا ہے؟ ان امور میں قرآن و سنت کی رہ نمائی مطلوب ہے۔ اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے اور اپنا قرب بخشے۔
جواب

طب کا شمار معزز پیشوں میں ہوتا ہے۔ جو حضرات یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں انھیں سماج میں عزت و جاہ اور مال و دولت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی بھی حاصل ہوتی ہے، اگر وہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں اخلاص اور خلق ِ خدا کو فائدہ پہنچانا پیش ِ نظر رکھیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ۔
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، عبد الرؤف المناوی،۳؍ ۴۸۱)
’’سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کی ذات سے دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے۔‘‘
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ معزز پیشہ بھی موجودہ دور میں ’صارفیت‘ کی نذر ہوگیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں ، نرسنگ ہومس اور پرائیویٹ اسپتالوں ، تشخیصی مراکز اور دوا ساز کمپنیوں میں گٹھ جوڑ ہوگیا ہے۔ سب ایک دوسرے کے تعاون سے مال و دولت کا ڈھیر لگانے میں جٹے ہوئے ہیں اور مریضوں کے مفاد اور فلاح و بہبود کا معاملہ، جسے سب کے نزدیک بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی، پس ِ پشت چلا گیا ہے۔ ان حالات میں مسلم ڈاکٹرس مقاصد ِ شریعت اور دین کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں صحیح لائحۂ عمل اختیار کرسکتے ہیں ۔
فقہاء نے صراحت کی ہے کہ مقاصد ِ شریعت پانچ ہیں : حفظ ِ جان، حفظ ِ مال، حفظ ِ دین، حفظ ِ عقل، حفظ ِ نسل۔ (شاطبی، الموافقات فی اصول الشریعۃ المطبعۃ الرحمانیۃ مصر، ۲؍۸)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمِنٌ۔ (ابو داؤد: ۵۱۲۸، ترمذی: ۲۸۲۲، ابن ماجہ: ۳۷۴۵)
’’جس شخص سے مشورہ کیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیے۔‘‘
ایک حدیث میں یہ زرّیں اصول بیان کیا گیا ہے:
لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ۔ (موطا امام مالک، کتاب الاقضیۃ، ۳۲۰۰، سنن ابن ماجہ: ۲۳۴۰)
’’نہ خود نقصان اٹھایا جائے، نہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔
(بخاری: ۱۳، مسلم: ۴۵)
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
تمام تر طبی سرگرمیوں کا مقصد یہ ہے کہ مریضوں کو فائدہ ہو، وہ جن تکالیف میں مبتلا ہوں ان کا ازالہ ہو، جن امراض کا شکار ہیں وہ دور ہوں اور جن امراض کے لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ان سے محفوظ رہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے دوران ڈاکٹروں ، اسپتالوں ، تشخیصی مراکز اور دوا ساز کمپنیوں ، سب کا مطمحِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ مریضوں کو غیر ضروری دوائیں نہ دی جائیں ، سستی اور کم دواؤں سے کام چل سکتا ہو تو مہنگی اور زیادہ دوائیں نہ لکھی جائیں ، بلا ضرورت مختلف ٹیسٹ نہ کروائے جائیں ، صرف دواؤں سے مرض دور ہوسکتا ہو تو آپریشن نہ تجویز کیا جائے وغیرہ۔ اگر ان امور کی پوری رعایت کی جائے تو اس کے بعد ڈاکٹروں کے درمیان باہم، یا تشخیصی مراکز اور ڈاکٹروں یا دوا ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے درمیان مالی فوائد اور مراعات کے تبادلے کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں مزید وضاحت کے لیے چند صورتیں درج کی جاتی ہیں :
(۱) ایک ہی دوا مختلف دوا ساز کمپنیاں مختلف ناموں سے تیار کرتی ہیں ، لیکن ان کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ بعض مشہور کمپنیاں اپنی شہرت کی بنا پر زیادہ قیمت رکھتی ہیں ۔ اگر دو دواؤں کے اجزاء اور ان کی تاثیر یکساں ہے، لیکن ایک کی قیمت کم اور دوسری کی قیمت زیادہ ہے تو ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ مریض کا مفاد اپنے سامنے رکھے اور کم قیمت کی دوا اس کے لیے تجویز کرے۔ یہ خیال کرنا کہ مہنگی دوا سے مریض نفسیاتی طور پر زیادہ مطمئن ہوگا، صحیح نہیں ہے۔ اس لیے سستی دوا کو چھوڑ کر مہنگی دوا تجویز کرنا غیر اخلاقی فعل ہے۔
(۲) بسا اوقات دو دواؤں کے اجزاء تو یکساں ہوتے ہیں ، لیکن ان کے عناصر کے تناسب میں کمی بیشی ہوتی ہے، یا کسی دوا میں مزید ایک عنصر کا اضافہ کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی تاثیر بدل جاتی ہے، یا اس میں تیزی آجاتی ہے۔ اس بنا پر بھی ان کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر زیادہ موثر لیکن مہنگی دوا تجویز کرسکتا ہے۔
(۳) اب تشخیص مرض کے لیے ڈاکٹروں کا انحصار مختلف جانچوں اور تفتیشی رپورٹوں پر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس بنا پر حسب ِ ضرورت جانچیں کروائی جاسکتی ہیں ۔ لیکن بغیر کسی خاص ضرورت کے، محض تشخیصی مراکز کو فائدہ پہنچانے یا ان سے اپنا کمیشن حاصل کرنے کے مقصد سے ڈھیر سی جانچیں لکھ دینا اور مریضوں کو مخصوص مراکز پر بھیجنا طبی اخلاقیات اور دینی اقدار دونوں کے منافی ہے۔
(۴) بعض امراض ایسے ہیں جن کا علاج دواؤں سے ممکن ہے۔ ان کے لیے ڈاکٹر کا آپریشن تجویز کرنا، محض اس لیے کہ آپریشن کی صورت میں کسی نرسنگ ہوم کا فائدہ ہو اور اسے آپریشن کی فیس حاصل ہو، جائز نہیں ۔
(۵) ایک دوا کم قیمت کی ہے اور اس کی تاثیر بھی کم ہے، یا وہ زیادہ دنوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے، جب کہ دوسری دوا نسبتاً مہنگی ہے، لیکن زیادہ مؤثر یا سریع الاثر ہے، ایسی صورت میں ڈاکٹر کا فرض ہے کہ اپنے طبی تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کرے کہ مریض کے لیے کم قیمت لیکن دیر میں اثر کرنے والی دوا مناسب ہے، یا مہنگی اور سریع الاثر دوا۔ اس کی رعایت کیے بغیر کسی دوکان دار کا فائدہ کرانے یا اپنا کمیشن بنانے کے مقصد سے مہنگی دوا تجویز کرنا جائز نہیں ۔
اس طرح کی اور بھی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ان سب میں ضروری ہے کہ ڈاکٹر مریض کا مفاد پیش نظر رکھے۔ وہ یہ دیکھے کہ اس کی صحت اور جان کے تحفظ کے لیے دوا بہتر ہے یا آپریشن؟ اور دو بہتر ہے تو کون سی؟ کس تشخیصی جانچ کی واقعی ضرورت ہے اور کس کی نہیں ؟ کن صورتوں میں مریض کے مال کا ضیاع ہے اور کون سے مصارف حقیقتاً مطلوب ہیں ؟ ان امور کو دھیان میں رکھ کر ڈاکٹر اپنے حقوق و فرائض کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ اس کے دین و ایمان کا بھی تقاضا ہے اور طب کی اخلاقیات میں سے بھی ہے۔