عقیقہ کی مدت

اگر کسی بچے کا بچپن میں عقیقہ نہ ہوا تو کیا بعد میں اس کا عقیقہ کروایا جا سکتا ہے؟
جواب

عقیقہ کا وقت جاننے سے قبل اس کی مشروعیت کے بارے میں واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کا عقیقہ کیا ہے۔ (ابو داؤد۲۸۴۱)اور آپؐ سے اس کا حکم بھی ثابت ہے۔ (بخاری۵۴۷۲) البتہ اس کی مشروعیت کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔
شوافع اور (مشہور قول کے مطابق) حنابلہ کے نزدیک عقیقہ سنت مؤکدہ اور مالکیہ کے نزدیک مستحب ہے، جب کہ امام ابوحنیفہؒ اسے صرف مباح کہتے ہیں ۔ وہ اس کے مسنون یا مستحب ہونے کے قائل نہیں ہیں ، البتہ حنفی فقیہ امام طحاویؒ سے اس کا مستحب ہونا منقول ہے۔ (رد المختار۵؍۲۱۳)
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک بچہ پیدا ہونے کے بعد کسی بھی دن عقیقہ کیا جا سکتا ہے، احناف اور مالکیہ کے نزدیک ساتویں دن سے قبل نہیں ہو سکتا۔ البتہ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا بہتر ہے۔
اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو مالکیہ کہتے ہیں کہ اس کا استحباب ختم ہوجائے گا۔ شوافع کے نزدیک بچے کا باپ یا ولی اس کے بالغ ہونے تک عقیقہ کر سکتا ہے۔ حنابلہ اور( ایک قول کے مطابق)مالکیہ کے نزدیک ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور اس دن بھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔
بچہ بالغ ہو جائے تو کسی دوسرے کی طرف سے اس کے عقیقہ کا حکم ساقط ہوجاتا ہے، البتہ وہ خود اپنا عقیقہ کر سکتا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے الموسوعۃ الفقہیۃ کویت۳۰؍ ۲۷۸۔۲۷۹، قاموس الفقہ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۴؍ ۴۱۰، کتاب الفتاویٰ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۴؍۱۷۴)