عورت کا حقِ سُکنیٰ

میرا ایک بیٹااور دوبیٹیاں ہیں ۔سب کی شادی ہوگئی ہے ۔ میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتا ہوں ۔ گھر میں میری اہلیہ بیٹے اوربہو کے ساتھ رہتی ہیں ۔ میر ا گھر الحمدللہ کافی کشادہ ہے ۔ نیچے پانچ کمرے ، برآمدہ ، کچن ، باتھ روم وغیرہ ہیں اور یہی سہولیات پہلی منزل پر بھی ہیں ۔ بس گھر میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ایک ہی ہے ۔ مزاجی اختلافات کی وجہ سے میری اہلیہ اوربہو میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ اس بنا پر بہو اوراس کے میکے والوں کا پُر اصرار مطالبہ ہے کہ اسے سسرالی گھر سے دور الگ سے رہائش فراہم کی جائے ۔ وہ ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ الگ سکونت کا مطالبہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔ براہِ کرم وـضاحت فرمائیں کہ کیا ایسا گھر،جو والدین اوربیٹے بہوپرمشتمل ہو، غیراسلامی مشترکہ خاندان کی تعریف میں آتا ہے ؟ اگر ساس یقین دہانی کرارہی ہوکہ گھر کی بالائی منزل پر بیٹے بہو کی علیٰحدہ سکونت پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے اوروہ آئندہ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گی ، پھر بھی بہو کی جانب سے گھر سے علٰیحدہ سکونت کا مطالبہ کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے ؟
جواب

نکاح کے بعد لڑکی اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کوچھوڑ کر نئے گھر میں منتقل ہوتی ہے تو اسے شوہر کے ساتھ ساس، سسر، نندوں اوردیوروں کی شکل میں دوسرے رشتے دار مل جاتے ہیں ۔ لڑکی اگر انہیں ماں ، باپ، بھائی، بہن کی حیثیت دے اوروہ لوگ بھی اس کے ساتھ پیار محبت کا معاملہ رکھیں تو گھر میں خوشی ومحبت کے شادیانے بجنے لگتے ہیں ، لیکن اگر رشتوں کی پاس داری نہ کی جائے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور بدگمانیاں پر وان چڑھنے لگیں تو گھر جہنم کدہ بن جاتا ہے ۔
دلہن کا حق ہے کہ اسے ایسی رہائش فراہم کی جائے جس میں اس کی پرائیویسی (PRIVACY) قائم رہے ۔ اس کی مملوکہ چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں اوران میں آزادانہ تصرف کا اسے حق حاصل ہو ۔یہ چیز مشترکہ مکان کا ایک حصہ خاص کرکے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے شوہر کے آبائی مکان سے دور رہائش فراہم کرنے پر اصرار نہ دلہن کی طرف سے درست ہے نہ اس کے ماں باپ کی طرف سے ۔
ساس سسر کی خدمت قانونی طور پر دلہن کے ذمے نہیں ہے ، لیکن اخلاقی طور پر پسندیدہ ضرور ہے ۔ وہ شوہر کے ماں باپ ہیں ۔ وہ ان کی خدمت کرے گی توشوہر کوخوشی ہوگی۔ کیا نیک بیوی اپنے شوہر کوخوش رکھنا نہیں چاہے گی ؟ لیکن بہر حال اگر مزاجی اختلاف کی وجہ سے دلہن شوہر کے ماں باپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تواسے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
آپ نے جوصورت لکھی ہے کہ شوہر کے آبائی مکان میں اوپری منزل علیٰـحدہ بلاک کی حیثیت رکھتی ہے ، اس میں تمام سہولیات الگ ہیں ،صرف باب الداخلہ ایک ہی ہے، اس صورت میں اگر دلہن الگ رہنے پر بضد ہے تواوپری منزل اس کے لیے خاص کردینے سے اس کا قانونی حق پورا ہوجاتا ہے ۔ اس کی طرف سے یا اس کے والدین کی طرف سے اس گھر سے دور کہیں اوررہائش فراہم کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اوررشتہ کوپامال کرنے سے متعلق جووعیدیں قرآن و حد یث میں آئی ہیں انہیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔