غیر مسلموں کو قرآن پاک دینے کا مسئلہ

سیرت کی کتابوں میں یہ مشہور واقعہ درج ہے کہ جب حضرت عمرؓ قبول اسلام سے قبل اپنی بہن بہنوئی کے ہاں گئے اور ان سے مار پیٹ کرنے کے بعد اپنی بہن سے صحیفہ پڑھنے کی درخواست کی تو بہن نے کہا کہ آپ شرک کی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہیں ، اس لیے غسل کرنے کے بعد ہی اس صحیفے کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ۔ چنانچہ انھوں نے نہا دھوکر سورۂ طٰہٰ کی تلاوت کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو قرآن کریم کا نسخہ نہیں دینا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم قرآن پاک کسی مشرک کے ہاتھ میں دیتے ہیں تو کیا گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس کو اگر ہم غسل کرکے ہاتھ لگانے کی ہدایت دیں تو کیا یقینی ہے کہ وہ ہماری بات پر عمل کرے گا؟ اگر ہم انھیں قرآن پاک نہ دیں تو پھر قرآن کا پیغام ان تک کیوں کر پہنچایا جائے؟ آج کل جماعت اسلامی ہند اکثر غیر مسلموں میں قرآن کریم کے نسخے تقسیم کر رہی ہے۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
جواب

غیر مسلموں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا امت مسلمہ کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی حسب موقع کوتاہی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہُط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لّاَ یَعْلَمُوْنَoع
(التوبۃ:۶)
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘
اس آیت کی رو سے مطلوب و مقصود یہ ہے کہ غیر مسلموں تک اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچے، خواہ وہ اسے سنیں یا پڑھیں ، دونوں تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں ۔ سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد ۷ھ میں اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف سلاطین و امراء کے نام خطوط لکھے اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ان خطوط میں قرآن کریم کی آیات بھی درج تھیں ۔ مثلاً آپؐ نے شہنشاہِ روم ہرقل کو جو خط بھیجا تھا اس میں سورۂ آل عمران کی آیت ۶۴ درج تھی:
یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍم بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ…الآیۃ۔
آپؐ نے یہ احتیاط نہیں فرمائی کہ وہ خط غیر مسلم کے ہاتھ میں جائے گا، اس لیے اس میں قرآن حکیم کی آیت تحریر نہ کریں ۔
بعض حضرات غیر مسلموں کو قرآن کریم نہ دینے پر اس سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ قرآن حکیم میں ان کو ناپاک کہا گیا ہے:
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (التوبۃ: ۲۸) ’’مشرکین ناپاک ہیں ۔‘‘
لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادی گندگی نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ مشہور محدث امام نوویؒ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: مشرکین نجس ہیں ، اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے اعضاء پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں ۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘ (۱)
کسی غیر مسلم کو پورا قرآن دیا جائے یا کسی کاغذ پر لکھی ہوئی قرآن کی ایک آیت، دونوں کا حکم برابر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہمارے لیے حجت ہے۔ حضرت عمرؓ کی بہن کے عمل کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ غیر مسلم کو قرآن کریم دیتے وقت اس سے کہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس لیے اس کا تقاضا ہے کہ صفائی ستھرائی کے ساتھ اور پاکی کی حالت میں اسے پڑھا جائے۔ عموماً غیر مسلم بڑے ادب و احترام کے ساتھ اسے قبول کرتے ہیں ۔ اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ پڑھتے وقت بھی وہ اس کا ادب ملحوظ رکھیں گے۔ ویسے بھی غیر مسلم پہلے ایمان کے مکلف ہیں ، پھر جزئی احکام دین کے۔ ایمان لانے سے قبل وہ جزئی احکام کے مکلف نہیں ہیں ۔