قرآن مجید کا ادب واحترام

اجتماعی مطالعۂ قرآن کے موقع پر کچھ لوگ مسجد کے فرش پرپالتی مارکر بیٹھ گئے اور انھوں نے قرآن مجید کو اپنی پنڈلیوں اورٹخنوں پراس طرح رکھا کہ مصحف اورپیروں کے درمیان جزدان ، کوئی کپڑا یا ان کی ہتھیلیاں بھی نہ تھیں ۔ میں  نے توجہ دلائی کہ یہ خلافِ ادب ہے تو کہا گیا کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں  ہے۔ مختلف طریقے لوگوں نے اپنے طورپر نکال لیے ہیں ۔ کیا اس طرح پیروں پرقرآن مجید رکھ کر پڑھنا اس کی بے ادبی نہیں ہے؟ میں  بڑی الجھن میں ہوں ۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ۔
جواب

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اس بناپر مصحف کا ادب واحترام لازم ہے۔ الحمد للہ مسلمانوں  کے دلوں میں مصحف کا غیر معمولی احترام پایا جاتا ہے۔ وہ اس کی ذرا بھی بے ادبی برداشت نہیں کرتے۔ چنانچہ اگر کسی موقع پر شر پسند علی الاعلان یا چھپ کر مسجد میں داخل ہوں اور قرآن مجید کے نسخوں کو ادھر ادھر پھینک دیں  یا جلادیں  تو اس کا غیظ وغضب بھڑک اٹھتا ہے۔
قرآن مجید کے ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ اسے پاک وصاف اوربلند جگہ پر رکھا جائے اور اس کی تلاوت کرتے وقت مصحف کو ہاتھ میں اس طرح لیاجائے کہ اس کا ادب نمایاں ہواور توہین واستخفاف کا شائبہ بھی نہ معلوم ہو۔
قرآن کی تلاوت اورمطالعہ کے وقت اسے ننگی پنڈلیوں اورٹخنوں  پر رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں کوئی صراحت یا اشارہ موجود نہیں ہے اور صحابہ، تابعین اور بعد کے علمانے بھی جو ازیا عدم جواز کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ انھوں  نے بس یہی اصولی بات کہی ہے کہ ہرحال میں قرآن کا ادب واحترام پیش نظر رہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس سلسلے میں سماجی رویوں کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ عام مسلمانوں  کے نزدیک مصحف کو کھلی پنڈلیوں اورٹخنوں پررکھ کر پڑھنا خلافِ ادب سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہمیں ایسا کرتے ہوئے دیکھیں  گے تو ہمارے بارے میں  اچھا تاثر قائم نہیں کریں  گے، اس لیے جواز یا عدم ِ جواز کی بحث میں پڑے بغیر دعوتی واصلاحی نقطۂ نظر سے ہمیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
البتہ بعض معاصر علما نے قرآن مجید کو گھٹنے سے اوپر ران پر یا گود میں رکھنے کو مضائقے سے خالی بتایا ہے، اس بناپر کہ یہ بے ادبی میں شمار نہیں ہوتاہے۔