محرمات سے علاج

کتابوں میں ایک روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص مرض میں مبتلا کچھ افراد کو ہدایت فرمائی تھی کہ فلاں مقام پر جاکر رہو اور وہاں کے اونٹوں کا دودھ بہ طور غذا اور ان کا پیشاب بہ طور دوا پیو تو شفا یاب ہوجاؤگے۔‘‘ اس ضمن میں چند امور وضاحت طلب ہیں : (۱) کیا یہ روایت درست ہے؟ اگر ہاں تو اس واقعہ کی تفصیل کیا ہے؟ (۲) کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی اور بیماری کے لیے کبھی اس طرح کا نسخہ تجویز فرمایا تھا؟ (۳) کچھ دواؤں کا تذکرہ ’طب نبوی‘ کے ذیل میں کیا جاتا ہے۔ کیا اونٹ کے پیشاب سے علاج کی یہ ہدایت بھی طب نبوی کے زمرہ میں شامل ہے؟ کیا آج بھی دواء ًا ایسا طریق علاج اختیار کیا جاسکتا ہے؟ (۴) کیا کوئی روایت ایسی ملتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ ایک عارضی حکم تھا اور بعد میں آں حضرتؐ نے اس طریق ِ علاج کو منسوخ کردیا تھا؟ (۵) ہندوستان کے کچھ علاقوں میں گدھی کا دودھ بہ طور غذا و دوا مستعمل ہے۔ کیا کسی مسلمان کے لیے گدھی کے دودھ کا استعمال جائز ہے؟
جواب

یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے۔ ا س کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے:
اِنَّ نَاسًا مِنْ عُرَیْنَۃَ قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ فَاجْتَوَوْھَا فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’اِنْ شِئْتُمْ اَنْ تَخْرُجُوْا اِلٰی اِبِلِ الصَّدَقَۃِ فَتَشْرَبُوْا مِنْ اَلْبَانِھَا وَ اَبْوَالِھَا، فَفَعَلُوْا فَصَحُّوْا ۔(۱)
’’قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’چاہو تو صدقہ کے اونٹوں کے درمیان چلے جاؤ اور وہاں رہ کر ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ انھوں نے اس پر عمل کیا تو وہ صحت یاب ہوگئے۔‘‘
یہ حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں مختلف سندوں سے چودہ مقامات پر روایت کی ہے۔(۱) صحیحین کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، سنن دار قطنی، صحیح ابن حبان، مصنف عبد الرزاق، سنن بیہقی، معجم اوسط طبرانی اور دیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔ اس بنا پر اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ قبیلۂ عکل و عرینہ کے کچھ لوگ، جن کی تعداد آٹھ بیان کی گئی ہے، خدمت ِ نبویؐ میں مدینہ حاضر ہوئے۔ انھیں صفۂ مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ مدینہ کی آب و ہوا انھیں راس نہیں آئی۔ وہ بیمار پڑگئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کے بدن پہلے سے لاغر تھے اور وہ بیماری کا شکار تھے، مدینہ میں کچھ دن قیام کرنے سے ان کی بیماری میں اضافہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں آبادی سے باہر اس جگہ بھیج دیاجہاں بیت المال کے اونٹ رکھے جاتے تھے۔ آپؐ نے انھیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چند دنوں میں وہ صحت یاب ہوگئے اور ان کا مرض دور ہوگیا۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر (۲) مردار، خون اور خنزیر کے گوشت وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اضطرار کی حالت میں ان کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر مباح چیزوں کے ذریعے کسی بیماری کا علاج نہیں ہوسکے تو اسے بھی بعض فقہاء نے اضطرار مانا ہے اور علاج کے لیے بہ طور دوا کسی حرام چیز کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں اس کی بعض مثالیں موجود ہیں ۔ حضرت عرفجہ بن اسعدؓ کی ناک ایک غزوہ میں کٹ گئی تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے سونے کی ناک بنوائی۔ (۳) حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ اور حضرت زبیرؓ کو خارش ہوگئی تو آں حضرت ﷺ نے انھیں ریشم کی قمیص پہننے کی اجازت دے دی۔ (۴) حالاں کہ سونے اور ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے۔
حرام چیزوں کے ذریعے علاج کے سلسلے میں فقہاء نے زیرِ بحث حدیث کو بھی دلیل بنایا ہے، بلکہ امام مالکؒ اور امام احمدؒ تو اس حدیث کی بنا پر کہتے ہیں کہ اونٹ کا پیشاب پاک ہے۔ انھوں نے اونٹ ہی پر دیگر ان جانوروں کو قیاس کیا ہے، جن کا گوشت کھایا جاتا ہے اور ان کا پیشاب پاک قرار دیاہے۔ فقہائے احناف میں امام محمدؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ امام شافعیؒ اور فقہائے احناف میں امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے، البتہ دوا کے طور پر اس کا استعمال جائز ہے۔ امام ابو حنیفہؒ دیگر احادیث کی بنا پر اسے ناپاک قرار دیتے ہیں اور بہ طور دوا بھی اس کا استعمال جائز نہیں سمجھتے۔ البتہ متاخرین حنفیہ نے محرمات کا بہ طور دوا استعمال، ان کا بدل نہ ہونے کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔ (۱)
طب نبوی سے مراد وہ معالجاتی تدابیر لی جاتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہیں اور ان دواؤں پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے جو آپ ﷺ نے تجویز فرمائی ہیں ۔ ظاہر ہے، اونٹ کے پیشاب سے علاج کی یہ ہدایت بھی طب نبوی میں شامل ہے اور وقت ِ ضرورت آج بھی بہ طور دوا اس طریق علاج کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ چند سال قبل عربی زبان میں اس موضوع پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام ہے: التداوی بالبان الابل و ابوالھا: سنۃ نبویۃ و معجزۃ طبیبۃ (اونٹ کے دودھ اور پیشاب سے علاج: ایک نبوی سنت، ایک طبی معجزہ)
ذخیرۂ احادیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے، جس سے معلوم ہو کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ایک عارضی حکم تھا، جسے بعد میں آپؐ نے منسوخ کردیا ہو۔ علامہ ابن القیمؒ نے واقعہ کی تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:
وقد ظھر بھذا ان القصۃ محکمۃ لیست منسوخۃ۔(۲)
’’اس تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ واقعہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔‘‘
یہ بیان بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جن لوگوں کے علاج کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کا دودھ اور پیشاب تجویز کیا تھا، انھیں کیا مرض تھا؟ اور اس میں بہ طور دوا اونٹ کا دودھ اور پیشاب کس حد تک کارگر ہے؟
احادیث میں ان لوگوں کے مرض کی صراحت موجود نہیں ہے، لیکن ان کی کچھ ایسی علامات مذکور ہیں ، جن سے مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ حدیث میں اِجْتَووھَا کا لفظ ہے۔ جویٰ پیٹ کے مرض کو کہتے ہیں ۔ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے۔ نسائی اور ابن سعد کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ان کی رنگت زرد پڑ گئی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے بدن گھل گئے تھے۔ ان علامتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً انھیں استسقاء (Ascites)کا مرض تھا۔ یہ مرض جگر کی خرابی سے لاحق ہوتا ہے۔ اس میں پیٹ میں پانی جمع ہوجاتا ہے، بدن کم زور ہوجاتا ہے اور رنگت زرد پڑجاتی ہے۔ بعض روایات میں علاج کے بعد ان لوگوں کی صحت مندی کی تفصیل بھی مذکور ہے۔ ان میں ہے کہ ان کے بدن فربہ ہوگئے تھے اور بدن کی اصل رنگت لوٹ آئی تھی۔
اطباء قدیم نے استسقاء اور امراض جگر میں اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے فائدہ مند ہونے کی صراحت کی ہے۔ طب کی ایک مشہور کتاب اندلسی طبیب اور ماہر ادویہ ابن بیطار (م ۱۲۴۸ء) کی الجامع لمفردات الادویۃ والاغذیۃ ہے۔ اس میں ہے:
’’اونٹ کا پیشاب استسقاء اور صلابتِ طحال میں مفید ہے، خاص طور پر اس وقت، جب اسے اونٹنی کے دودھ کے ساتھ استعمال کیا جائے۔‘‘ (۱)
ایک طبیب (شریف) کے حوالے سے ابن بیطار نے لکھا ہے:
’’اونٹ کا پیشاب اور امِ جگر میں مفید ہے۔‘‘ (۲)
ایک اور طبیب (الیہودی) کے حوالے سے اس نے بیان کیا ہے:
’’اونٹنی کا دودھ یرقان، دمہ اور ضیق النفس میں مفید ہے، سد ّوں کو کھولتا ہے، جگر کو تروتازہ رکھتا ہے، جسم کو قوی بناتا ہے۔ بہتر ہے کہ استسقاء کے مریض کو اس کا دودھ اور پیشاب ایک ساتھ پلایا جائے۔ اسے عورتوں کی رنگت صاف کرنے کے لیے بھی پلانا چاہئے۔‘‘ (۱)
اس موضوع پر موجودہ دور میں بھی متعدد تحقیقات ہوئی ہیں ۔ ایک خاتون ڈاکٹر احلام العوض، معلمہ کلیۃ التربیۃ، جامعۃ ام القریٰ سعودی عرب نے التداوی بلبن و بول الناقۃ (اونٹنی کے دودھ اور پیشاب سے علاج) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ایک تحقیقی مقالہمجلۃ المجلس العلمی للاختصاصات الطبیۃ، ربیع الثانی ۱۴۲۱ھ (۲۰۰۰) میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے: Clinical Trials for the Treatment of Ascites with Camel Urine ایک کتاب ۲۰۰۳ء میں جناب شہاب البدری یٰسٓ نے عربی زبان میں التداوی بالبان الابل و ابوالھا کے نام سے مرتب کی ہے۔ ان تحریروں میں دودھ اور پیشاب کا کیمیاوی تجزیہ کرکے ان کے مشتملات مع تناسب کی نشان دہی کی گئی ہے اور استسقاء، امراض جگر اور بعض دیگر امراض میں ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں اس موضوع پر بعض مغربی تحقیقات کا بھی حوالہ موجود ہے۔
گدھی کے دودھ کے بارے میں حدیث میں کوئی صراحت نہیں ملتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن شہاب زہریؒ نے اپنے شیخ ابو ادریس خولانیؒ سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھوں کا گوشت کھانے سے صاف الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ جہاں تک ان کے دودھ کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں آپؐ سے نہ اجازت منقول ہے نہ ممانعت۔‘‘ (۲) اس روایت کی شرح میں علامہ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ گدھی کا دودھ جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے۔(۳) لیکن الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے: ’’پالتو گدھی کا دودھ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نجس و حرام اور حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ البتہ عطا، طاؤس اور زہری نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے۔‘‘ (۴)