مردوں کے لیے عورتوں سے علمی استفادہ؟

(۱) کیا کوئی عورت مردوں کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پردے کی حالت میں تقریر کرسکتی ہے؟ (۲) کیا کسی مسلم خاتون اسکالر کی تقاریر، دروس ِ قرآن و حدیث وغیرہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے، کسی مرد کے لیے سننا جائز ہے؟ بہ راہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب سے نوازیں ۔
جواب

اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان روابط کے کیا حدود ہیں ؟ اس سلسلے میں ہمارے سماج میں بہت زیادہ افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو ان کے درمیان کسی قسم کے رابطے کی اجازت نہیں دیتے، حتی کہ اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کی پرچھائیں بھی دکھائی دینے کے روادار نہیں ہیں ، جب کہ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو ان کے درمیان کسی روک ٹوک کے قائل نہیں ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر سطح پر ان کے درمیان خلا ملا ہوسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں رویے انتہا پسندی کے مظہر ہیں ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شاہ راہِ اعتدال ان کے درمیان ہے۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اجنبی مرد اور عورت ایک دوسرے سے اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں ۔ احکام حجاب کی پاس دار کریں اور تنہائی میں نہ ملیں ۔ البتہ اختلاط سے بچتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کی باتیں سن سکتے ہیں ۔ عورتوں کی آواز میں فطری طور پر ملائمت، کھنک اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے انھیں خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اجنبی مردوں سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز میں لوچ پیدا نہ کریں اور صاف، سیدھے اور سپاٹ انداز میں بات کریں ۔ ازواجِ مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰـنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًاoج (الاحزاب: ۳۲)
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو، تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے، اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘
اس آیت کے ضمن میں مفسرین کی بعض تشریحات ملاحظہ ہوں :
(۱) آیت کے ٹکڑے اِنِ اتَّقَیْتُنَّ کا تعلق ماقبل سے بھی ہوسکتا ہے اور مابعد سے بھی۔ ماقبل سے متعلق ہونے کی صورت میں اس کا مطلب ہوگا ’’اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، بل کہ ان سے افضل ہو۔‘‘ اور مابعد سے تعلق کی صورت میں اس کا ترجمہ ہوگا ’’اگر تم تقویٰ اختیار کرنا چاہتی ہو تو دوسروں سے نرم زبان میں بات نہ کرو۔‘‘ (فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، المکتبۃ التوفیقیۃ، قاھرہ، ۱۳؍۱۸۲، ابو حیان الاندلسی: البحر المحیط، دار احیاء التراث العربی، بیروت ۲۰۰۲ء، ۷؍۲۰۳)
(۲) اِتَّقٰی کے ایک معنی سامنا کرنے، استقبال کرنے، ملاقات کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ یہاں یہ معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ یعنی اجنبیوں کا سامنا ہو تو ان سے آواز میں لوچ پیدا کیے بغیر بات کرو۔ یہ معنیٰ لغت میں معروف ہے۔ (اّتقیٰ بمعنی استقبل معروف فی اللغۃ، البحر المحیط، ۷؍۲۰۳)
(۳) آیت میں اس انداز سے بات کرنے کی ممانعت ہے جس سے بیمار ذہنیت کے لوگوں میں برا جذبہ ابھرے۔ یہ انداز اس زمانے میں فاحشہ اور بدکار عورتیں اختیار کرتی تھیں ۔ (زمخشری، الکشاف، طبع مصر، ۱۹۷۲ء، ۳؍۲۶۰، تفسیر قرطبی، ۱۴؍۱۷۷)
(۴) معروف طریقے کے مطابق بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ’معروف قول‘ سے مراد وہ باتیں ہیں جو نہ شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں اور نہ عقلی طور پر (و ھو الذی لا تنکرہ الشریعۃ ولا العقول۔ البحر المحیط، ۷؍۳۰۳، تفسیر قرطبی، ۱۴؍۱۷۸)
(۵) اس آیت میں جو آداب بیان کیے گئے ہیں ان کا خطاب اگرچہ نبی ﷺ کی ازواجِ مطہرات سے ہے، لیکن تبعاً امت کی عورتیں بھی ان کی مخاطب ہیں ۔
(تفسیر ابن کثیر، طبع دیوبند ۳؍۶۳۱)
ان ہدایات کے مطابق عہد نبوی میں اور آں حضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی ازواجِ مطہرات اور دیگر صحابیات کی معمول کی سرگرمیاں جاری رہیں اور ان سے بے شمار مردوں نے دین کی باتیں سیکھی ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ اسماء بنت زید بن سکنؓ نامی ایک خاتون، جو حضرت معاذ بن جبلؓ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ، ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ اس وقت آپؐ ایک مجلس میں صحابہ کرامؓ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ انھوں نے پہنچ کر عرض کیا: ’’میں مسلمان خواتین کی ایک جماعت کی طرف سے، جو میرے پیچھے ہے، قاصد بن کر آئی ہوں ۔ سب کی سب وہی کہتی ہیں جو میں کہتی ہوں اور وہی رائے رکھتی ہیں جو میری ہے۔ اللہ نے آپؐ کو مردوں اور عورتوں ، دونوں کی طرف بھیجا ہے۔ ہم سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی پیروی کی، لیکن ہم طبقۂ خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ پابند، پردہ نشین، گھر میں بیٹھی رہنے والی، مردوں کی خواہشات کی مرکز اور ان کی اولاد کو اٹھانے والی ہیں اور مردوں کو جمعوں میں شرکت اور جنازوں اور جہاد میں حصہ لینے کی بنا پر فضیلت دی گئی ہے۔ جب وہ جہاد پر جاتے ہیں تو ہم ان کے مال و اسباب کی حفاظت اور ان کے بچوں کی پرورش کرتے ہیں ۔ تو کیا اے اللہ کے رسول! اجر و ثواب میں ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہوں گی؟ حضوؐر نے صحابہؓ کی طرف اپنا رخ کیا اور پوچھا: کیا تم نے کسی عورت کو اپنے دین کے متعلق اس عورت سے زیادہ بہتر انداز میں سوال کرتے سنا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! نہیں ۔‘‘ (ابن عبدا لبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، علی ہامش الاصابۃ لابن حجر، مطبعۃ السعادۃ مصر، ۴؍۲۳۷- ۲۳۸)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس نبوی میں موجود صحابہ کرام مذکورہ خاتون کو دیکھ بھی رہے تھے اور ان کی گفتگو سن بھی رہے تھے۔
بعض فقہائے کرام عورت کی آواز کے پردے کے بھی قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک اسے اجنبی مردوں سے اپنی آواز چھپانی چاہیے۔ لیکن قرآن و سنت کے مذکورہ بیان کی روشنی میں یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ الموسوعۃ میں ہے:
اَمَّا صَوْتُ الْمَرْأۃِ فَلَیْسَ بِعَوْرَۃٍ عِنْدَ الشَّافِعِیَّۃِ، وَ یَجُوْزُ الْاِسْتِمَاعُ اِلَیْہِ عِنْدَ اَمْنِ الْفِتْنَۃِ۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ طبع کویت، ۳۱؍ ۴۷، بہ حوالہ مغنی المحتاج، ۳؍۱۲۹)
’’رہی عورت کی آواز تو شوافع کے نزدیک اسے چھپانے کی ضرورت نہیں ۔ فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے سنا جا سکتا ہے۔‘‘
استاذ گرامی محترم مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند سے ایک موقع پر سوال کیا گیا کہ کیا عورت کے لیے آواز کا بھی پردہ ہے یا نہیں ؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’’عورت کے لیے اجنبی مردوں سے بلاوجہ بات چیت کرنا، ناپسندیدہ ہے، لیکن بہت سی علمی، دینی، معاشی ضروریات کے تحت اسے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ کسی نامحرم سے بات چیت کے وقت عورت کی آواز میں لوچ نہ ہو۔ اس کی آواز ایسی نہ ہو کہ غیر مرد کے دل میں کوئی برا خیال آئے۔ بل کہ اس کے لب و لہجے میں کسی قدر درشتی ہو اور بات نیکی، تقویٰ اور دین و دنیا کی بھلائی کی ہو۔ ان ہدایات کو پیش ِ نظر رکھ کر عورت اجنبیوں سے بات کرسکتی ہے۔‘‘
(اسلام کا عائلی نظام، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۰۶ء، ص: ۱۸۱)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ تمام آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر کوئی عورت کسی دینی موضوع پر تقریر کرے یا قرآن، حدیث کا درس دے اور اس پروگرام کی ویڈیو گرافی کر لی جائے تو مردوں کے لیے اس کی تقریر سننا اور اس کی ویڈیو دیکھنا جائز ہے۔