مردے کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب

مردہ کے لیے دعائے مغفرت کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کسی آدمی کاانتقال ہوتا ہے تو تین دن ہر صبح اس کی قبر پر جاکر کچھ اذکار اور قرآن کی کچھ سورتیں پڑھ کر دعائے مغفرت کی جاتی ہے۔ پھر واپس آکر اس کے گھر والوں کی تعزیت کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ فاتحہ پڑھتے وقت اکثر لوگ قبرستان میں ہاتھ اوپراٹھانے پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قبرستان میں ہاتھ اوپر اٹھا کر مردے کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع ہے۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں اور بتائیں کہ ایصالِ ثواب کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں ؟
جواب

احادیث میں زیارت ِ قبور کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ لیکن قبر پر جاکر دعائے مغفرت کرنا ضروری نہیں ۔ اسی طرح میت کے گھر والوں کی تعزیت کرنا پسندیدہ اور مسنون عمل ہے۔ لیکن کسی مخصوص طریقے کو رواج بنا لینا اور ٹھیک ٹھیک اس کی پابندی کرنا مناسب نہیں ہے۔ قرآن کی کچھ سورتیں پڑھ کر کسی میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا یا بعض اعمال صالحہ انجام دے کر اس کا ثواب کسی میت کو پہنچانا جائز ہے۔ احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس موضوع پر مولانا مفتی جمیل احمد نذیری نے اپنی کتاب ’مسئلہ ایصال ثواب‘ (شائع کردہ مکتبہ صداقت، نوادہ، مبارک پور، اعظم گڑھ) میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس سے رجوع کرنا چاہیے۔اللہ کے رسول ﷺ نے اکثر بغیر ہاتھ اٹھائے دعا مانگی ہے اور بعض مواقع پر آپؐ سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بھی ثابت ہے۔