مسجد میں دوسری جماعت

گاؤں میں ایک صاحب کی دوکان ہے ۔ اس میں خریداروں کا کافی ہجوم رہتا ہے ، جس کی وجہ سے ان کی جماعت اکثر چھوٹ جاتی ہے ۔ وہ مسجد آتے ہیں تو اگر کوئی اور مل جاتا ہے تو اس کے ساتھ جماعت کرلیتے ہیں ۔ امام صاحب نے ایک مرتبہ ان کوٹوک دیا کہ یہ عمل درست نہیں ہے ۔ دوسری جماعت کرنے کی اجازت راستے کی مسجد میں دی گئی ہے ، محلہ کی مسجد میں نہیں ۔ اگرآپ کی جماعت چھوٹ جائے تو دوکان یا گھر ہی پرنماز پڑھ لیا کریں ۔ مسجد آئیں تو یہاں اکیلے نماز پڑھاکریں ، دوسری جماعت نہ کیا کریں ۔ آپ کے اس عمل سے دوسرے لوگ پہلی جماعت کے وقت مسجد میں آنے میں کوتاہی کرنے لگیں گے۔ کیا یہ درست ہے ؟ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

جمہور فقہا (احناف، مالکیہ اورشوافع) کہتے ہیں کہ محلے کی مسجد میں کسی نماز کی جماعت ہوجانے کے بعددوسری جماعت کرنا مکرو ہ ہے ۔ دلیل کے طور پر وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ مدینہ کے مضافات میں تشریف لےگئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ نماز ہوگئی ہے ۔ آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے، گھر والوں کوجمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ (اس کی روایت ہیثمی نے مجمع الزوائد ۲؍۴۵ میں کی ہے اورلکھا ہے کہ اسے طبرانی نے بھی الکبیر اور الاوسط میں روایت کیا ہے اوراس کےراوی ثقہ ہیں ۔)
دوسری جماعت کے مکروہ ہونے کی ایک وجہ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر دوسری جماعت کی عام اجازت دے دی جائے تو لوگ پہلی جماعت میں شامل ہونے کے معاملے میں سستی دکھائیں گے۔
بعض حضرات نے حضرت انس بن مالکؓکے واسطے سے صحابۂ کرام کا یہ معمول نقل کیا ہے کہ وہ مسجد میں دوسری جماعت کرنے کے بجائے تنہا تنہا نماز پڑھتے تھے۔( تحفۃ الاحوذی، مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری، ۱؍۴۷۸)لیکن یہ روایت حدیث کی کسی معتبر کتاب میں بیان نہیں کی گئی ہے۔
حنابلہ کے نزدیک محلے کی مسجد میں دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہے ۔ صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورتابعین میں سے عطا، حسن ، نخعی، قتادہ اور اسحاق رحمہم اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے ۔ اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک مر تبہ ایک شخص مسجد نبوی میں آیا ۔ اس وقت جماعت ہوچکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنہا دیکھا تو فرمایا : کون شخص اس پر صدقہ کرے گا؟ (مَنْ یَّتَصَدَّقُ عَلٰی ہَذٰا) یعنی اس کے ساتھ کون نماز پڑھے گا ، تاکہ اس کو جما عت کاثواب مل جائے؟ یہ سن کر ایک شخص اُٹھا اور اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا، (مسند احمد۱۱۴۰۸۔ اسے امام حاکم ؒ نے بھی روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ امام ذہبیؒ نے اس کی تائید کی ہے۔)
امام ابوحنیفہؒ اورامام ابویوسفؒ سے مروی ہے کہ دوسری جماعت اس وقت مکروہ ہے جب پہلی جماعت چھوڑنے والے بہت بڑی تعداد میں ہوں ۔ لیکن اگر صرف تین چار افراد کی پہلی جماعت چھوٹ گئی ہو اوروہ مسجد کے کسی گوشے میں دوسری جماعت کرلیں تویہ مکروہ نہیں ہے۔ امام محمدؒ فرماتے ہیں  دوسری جماعت اس صورت میں مکروہ ہے جب اعلان کرکے اور لوگوں کو بلا کر کی جائے، ورنہ نہیں ۔ امام ابویوسفؒ سے مروی ہے کہ اگر دوسری جماعت پہلی جماعت کی ہیئت پر نہ ہو، یعنی محراب سے ہٹ کر کسی دوسری جگہ ہوتو مکروہ نہیں ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مسجد میں کسی نماز کی جماعت ہوجائے تو دوسری جماعت علی الاطلاق مکروہ نہیں ہے، چاہے وہ محلے کی مسجد ہو یا بازار اورراستے کی مسجد۔ لیکن اس سے پہلی جماعت چھوڑدینے اور اس میں شریک ہونے میں سستی کرنے کی گنجائش نہیں نکالی جاسکتی۔ دوکان پرہجوم ہونا کوئی ایسا عذر نہیں ہےجوجماعت چھوڑنے کے لیے قابل قبول ہو۔ آدمی کوئی متبادل تلاش کرلے کہ جب وہ نماز کے لیے مسجد جائے تو اس کی جگہ دوسرا شخص دوکان پر بیٹھ جائے۔ کوئی نہ ہو تو دوکان بند کرکے جائے۔ اس کے دل میں یہ اعتقاد مستحکم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رزّاق ہے۔ نمازوں کے اوقات میں مسجد جاکر جماعت میں شریک ہونے سے اس کی دوکان داری متاثر نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں جتنی روزی لکھ دی ہے وہ اس کو ہر حال میں مل کر رہےگی۔ یہ اعتقاد دل میں راسخ ہوتو آدمی مسجد کی پہلی جماعت میں شریک ہونے میں کوتاہی نہیں کرے گا۔