مشترکہ تجارت میں خسارہ کا تناسب

میں کئی برس سے ایک بزنس کررہا ہوں ۔ میں نے اپنے ایک دوست کو پیش کش کی کہ وہ بھی اس میں شریک ہوجائے۔ وہ اس پر رضا مند ہوگیا۔ اب بزنس میں میرا سرمایہ ستّر(۷۰) فی صد اور میرے دوست کا تیس (۳۰) فی صد ہے ۔ ہم اس پر متفق ہوگئے کہ نفع میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے ، یعنی نفع میں ہر ایک کا حصہ پچاس(۵۰) فی صد ہوگا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر بزنس میں خسارہ ہوتو کیا اس میں بھی ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے، یعنی ہر ایک کوپچاس (۵۰) فی صد خسارہ برداشت کرنا ہوگا، یا جس کا سرمایہ جس تناسب سے لگا ہوا ہے اس کے اعتبار سے اسے خسارہ برداشت کرنا ہوگا؟
جواب

شترکہ تجارت شرکت اور مضاربت دونوں طریقوں سے کی جاسکتی ہے ۔ شرکت یہ ہے کہ دو یاد و سے زائد افراد متعین سرمایوں کے ساتھ کسی کاروبار میں شریک ہوں اوران کے درمیان یہ معاہدہ طے پائے کہ وہ مل کر کاروبار کریں گے اور نفع ونقصان میں ان کی شرکت متعین تناسب کے ساتھ ہوگی اور مضاربت یہ ہے کہ ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے اوران کے درمیان یہ معاہدہ ہوکہ نفع میں ایک متعین تناسب سے اسے حصہ ملے گا۔
شرکت اورمضاربت دونوں صورتوں میں نفع دونوں فریق کے درمیان باہم طے کردہ تناسب سے تقسیم ہوگا۔ کسی فریق کے لیےکوئی متعین رقم طے کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ سوال کہ کیا شرکائے کاروبار باہم رضا مندی سے نفع کی تقسیم جس تناسب کے ساتھ چاہیں ،کرسکتے ہیں ؟ مضاربت کی صورت میں اس کا جواب تمام فقہا اثبات میں دیتے ہیں ، البتہ شرکت کی صورت میں ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف اورحنابلہ اس صورت میں بھی شرکائے کاروبار کواجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے درمیان نفع کی تقسیم کا جوتناسب چاہیں ، طے کرسکتے ہیں ، لیکن مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ نفع کی تقسیم شرکا کے فراہم کردہ سرمایوں کے تناسب سے عمل میں آئےگی۔
جہاں تک نقصان کا معاملہ ہے ، شرکت کی صورت میں وہ ہمیشہ کاروبار میں لگے ہوئے سرمایوں پر ان کی مقداروں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گااوراسے ان سرمایوں کے مالک برداشت کریں گے۔ مضاربت کی صورت میں مُضـارِب (کاروبارکرنے والے) پر نقصان کا کچھ بار نہیں ڈالا جائے گا ، اسے کلّی طورپر صرف سرمایہ دار کوبرداشت کرنا ہوگا۔
نفع اورنقصان میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک نفع سرمایہ لگاکر کاروباری جدو جہد کرنے کا نتیجہ ہے، جب کہ نقصان کسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں ، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ کاروباری جدو جہد کے باوجود سرمایہ میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے کاروبار میں نفع اورنقصان کے فرق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے
’’نفع اورنقصان کی نوعیت میں اصولی فرق کا شریعت نے لحاظ رکھا ہے ۔ یہ بات مضاربت کے شرعی اصول سے واضح ہے۔ اگر کاروبارِمضاربت میں نقصان ہوتو کاروباری فریق کواس نقصان کا کوئی حصہ نہیں برداشت کرنا ہوگا ۔ اس نے سرمایہ کے ذریعے کاروبارمیں جدوجہد کی ،تاکہ سرمایہ میں اضافہ ہو اوراس نفع میں سے اسے بھی حصہ ملے، لیکن باوجود کوشش کے اضافہ نہ ہوسکا۔ اس کی کاروباری جدوجہد ناکام رہی ، اسے کوئی نفع نہیں ملے گا۔ یہی اس کا نقصان ہے ۔ ا س سے آگے بڑھ کر اس پر سرمایہ میں واقع ہونے والی کمی، یعنی کاروبار میں خسارہ کا بار نہیں ڈالا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریعت نقصان کو کاروباری جدوجہد کا نتیجہ یا ثمرہ یا حاصل نہیں قرار دیتی۔ وہ نقصان کوسرمایہ میں نقصا ن قرار دیتی ہے ۔ اس کے برعکس اگرمضاربت پر سرمایہ حاصل کرکے کاروباری جدوجہد کرنے والے کی کوششیں کا م یاب ہوئیں اور کاروبار میں نفع ہوا تو اسے اس نفع میں سے ایک حصہ ملتا ہے۔معلوم ہوا کہ شریعت نفع کو سرمایہ کے ساتھ کاروبار ی جدوجہد کا نتیجہ اورثمرہ قرار دیتی ہے ۔ شریعت نے نفع اور نقصان کوایک درجہ نہیں دیا ہے، نہ ان کی تقسیم کا اصول ایک رکھا ہے‘‘۔
(شرکت ومضاربت کے شرعی اصول ، مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی ،۱۹۸۴، ص  ۳۳،۳۴)
خلاصہ یہ کہ مشترکہ تجارت کے دو فریق الگ الگ تناسب میں اپنا سرمایہ لگانے کے باوجود نفع میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ، لیکن نقصان کی صورت میں انہیں اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے تناسب کے مطابق ہی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔