مقیم شخص کے لیے حج تمتع

میں جدہ میں  رہتی ہوں ۔ میرے شوہر یہاں ملازمت کرتے ہیں ۔کچھ دنوں پہلے ہم نے عمرہ کیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ امسال حج بھی کرلیں ۔لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ۔ وہ کہتےہیں کہ مکہ مکرمہ سے قریب رہنے والے اگر عمرہ کرلیں توانہیں اس سال حج نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں حج تمتع کرنے سے روکا گیا ہے۔کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب

حج کی تین صورتیں  ہیں  اول یہ کہ آدمی صرف حج کرے۔اسے حجِ افراد کہتے ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی احرام باندھنے کے بعد عمرہ بھی کرے،اسے حجِ قران کہتے ہیں ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے،پھر جب حج کا زمانہ آئے تو دوبارہ احرام باندھے، اسے حج تمتّع کہتے ہیں ۔ اس صورت میں  حاجیوں کے لیے سہولت ہے، اس لیے وہ عموماً اس کو اختیارکرتے ہیں ۔ حج تمتع کرنے والے پرقربانی واجب ہوتی ہے، یا دس روزے،جن میں تین دوران حج اورسات وطن واپس آنے کے بعد رکھے جائیں  گے۔
حج تمتّع کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں  کیاگیا ہے
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
(البقرۃ۱۹۶)
’’توجو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدورقربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔‘‘
اس آیت میں  دراصل عربوں کے ایک عام خیال کی تردید کی گئی ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک ہی سفر میں  عمرہ اور حج دونوں کرنا درست نہیں ہے۔دونوں  اعمال تقرب میں سے ہیں ، اس لیے انہیں الگ الگ انجام دینا چاہیے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے
’’عرب جاہلیت میں یہ خیال کیاجاتا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اورعمرہ دونوں ادا کرنا گناہ عظیم ہے۔ ان کی خودساختہ شریعت میں عمرے کے لیے الگ اورحج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اڑادیا اورباہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں  عمرہ اور حج دونوں کرلیں ۔ البتہ جو لوگ مکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا،کیوں  کہ ان کے لیے عمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرکے احرام کھول لے اوران پابندیوں سے آزادہوجائے جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں ۔ پھر جب حج کے دن آئیں  تو ازسرنو احرام باندھ لے۔‘‘
(تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،۲۰۱۵ء،۱؍۱۵۵)
آیت بالا میں  یہ بات کہی گئی ہے کہ حج تمتع کی سہولت صرف ان لوگوں  کے لیے ہے جو حدودِ میقات کے باہر رہتے ہیں ۔ یہ نہیں  کہا گیا ہے کہ جو لوگ حدودِ میقات کے اندر رہتے ہیں وہ ایک سال میں عمرہ اورحج الگ الگ نہیں کرسکتے۔ علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے
’’جمہورعلما نے کہا ہے کہ جو شخص حج کے مہینوں  یعنی (شوال،ذی قعدہ اور ذی الحجہ) میں  عمرہ کرے، پھر اپنے علاقے اور گھر کی طرف لوٹ جائے، پھر وہ اسی سال حج کرے، تو وہ متمتع (حج تمتع کرنے والا) نہیں ہوگا۔ نہ اس پرقربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمہ روزے لازم ہوں گے۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن موسستہ الرسالۃ بیروت، ۲۰۰۶ء ۳؍۳۰۷)
اس سے معلوم ہوا کہ حدودمیقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ اگر وہ عمرہ کرلیں تو اس سال وہ حج نہیں کرسکتے۔