مہرکی شرعی حیثیت

میرے ایک دوست کا نکاح ہونے جارہاہے۔انھوں نے لڑکی کے لیے سونے کے زیورات (جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہیں ) اورپوشاک وغیرہ تیارکی ہے۔ لڑکی والے مزیداکیاون(۵۱) ہزارروپے مہر کی ڈیمانڈ کررہے ہیں ۔ کیا نقد مہر دینا لازمی ہے؟ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

نکاح کے موقع پر جن کاموں کی انجام دہی ضروری ہے ان میں سے ایک مہرادا کرنا بھی ہے۔مہرسے مرادوہ رقم ہے جو لڑکی کو نکاح کے وقت شوہر کی طرف سے ملتی ہے،یا وہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے ۔قرآن وحدیث میں اس کا حکم دیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً۝۰ۭ (النساء۴)
’’اورعورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو۔‘‘
حدیث میں ہے کہ ایک نوجوان نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے ایک عورت سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے اسے مہر ادا کرنے کی تاکید کی اور فرمایا
اِلْتَمِسْ وَلَو خَاتَمًا مِن حَدِیْدٍ (بخاری۵۱۲۱،مسلم۱۴۲۵)
’’کچھ لے کر آئو ،چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے جتنے نکاح کیے، سب میں  مہرادا کیا۔ آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا نکاح اپنے چچازاد بھائی حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کیا تو ان سے مہردلوایا۔
نکاح کے وقت مہر مقررنہ ہوتو لڑکی ’مہر مثل‘ کی مستحق قرارپاتی ہے، یعنی مہر کی وہ مقدار جو اس کے خاندان کی دیگر لڑکیوں کی طے ہوئی ہو۔
مہر کا نقدی کی شکل میں ہونا ضروری نہیں  ہے۔ منقولہ یا غیر منقولہ کوئی چیز، مثلاً زمین، مکان، دوکان ،گاڑی، زیورات ، کوئی بھی چیز مہر میں دی جاسکتی ہے، البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ فلاں  چیز مہر میں دی گئی ہے۔