میت کی تدفین کے بعد دعا

میں نے اب تک جن جنازوں میں شرکت کی ہے ان میں معمول رہا ہے کہ تدفین کے بعد قبر کے پاس اجتماعی دعا مانگی جاتی رہی ہے ، لیکن حا ل میں ایک جناز ہ میں شریک ہوا تودعا نہیں مانگی گئی۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تدفین میت کے بعد دعا ثابت نہیں ہے ۔ نمازِ جنازہ میت کے لیے دعا ہے ۔ اس کے بعد مزید کسی دعا کی ضرورت نہیں ۔براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ میت کی تدفین کے بعد دعا مانگنا صحیح ہے یا نہ مانگنا؟
جواب

میت کی تدفین کے بعد اس کے لیے دعا و استغفار کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے توٹھہرتے اورفرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ وَسَلُوْا لَہٗ التَّثْبِیْتَ فَاِنَّہٗ الاَنَ یُسْئَلُ
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو اوراس کے لیے ثابت قدمی چاہو، اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیاجارہاہے۔‘‘
(ابوداؤد، کتاب الجنائز ، باب الاستغفارعند القبرللمیت فی وقت الانصراف،۳۲۲۱۔یہ حدیث حاکم اوربیہقی میں بھی مروی ہے )
حاکمؒ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور ذہبیؒ نے ان کی تائید کی ہے ۔ امام نوویؒ نے لکھا ہے:
اس کی سند ’ جیّد ‘(قابل قبول ) ہے ۔علامہ البانیؒ نے اپنی کتاب الجنائز میں اس کو نقل کیا ہے ، اسے صحیح قرار دیا ہے اوراس کی بناپر میت کی تدفین کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے کو درست قرار دیا ہے ۔ (ص۱۸۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے رسول اللہ ؐ کوعبداللہ بن ذی النجادین کی قبر پر دیکھا۔ جب آپؐ تدفین سے فارغ ہوئے تو قبلہ رخ ہاتھ اُٹھا کر دعا کی ۔‘‘ 
(صحیح ابوعوانۃ ، فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، ابن حجر عسقلانی ، المکتبۃ السلفیۃ القاہرۃ۱۱:/۱۴۴)
ابن ابی شیبہؒ نے اپنی کتاب ’ المصنف ‘ میں ایک باب باندھا ہے :فی الدعا ء للمیت بعد ما یُدْفَنُ وَیُسَوَّیْ عَلَیْہِ( اس چیز کا بیان کہ میت کو دفن کرنے اور اس کی قبر برابر کرنے کے بعد اس کے لیے دعا کی جائے)اس کے تحت انہوں نے متعدد صحابہ کرام کا عمل نقل کیا ہے ۔ مثلاً حضرت انس بن مالک ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ’’جب میت کی قبر برابر کردی جاتی تووہ اس کے پاس کھڑے ہوکر یہ دعا کیا کرتے تھے ۔’’ اے اللہ!تیرا یہ بندہ واپس تیرے پاس پہنچ گیا ہے ۔ تو اس کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرما۔زمین کو اس کے پہلو سے ہٹادے ۔ آسمان کے دروازے اس کی روح کے لیے کھول دے ۔ اس کو قبول فرما۔اے اللہ! اگروہ نیکوکار ہو تواس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر گناہ گارہو تو اس کے گنا ہو ں سے درگزر فرما۔‘‘
(المصنف لابن ابی شیبہ، الفاروق الحدیثۃللطباعۃوالنشر،القاہرۃ، ۲۰۰۷ء ۴:/۲۸۴)
اسی طرح حضرت ابن عباسؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن سائبؓ کی تدفین کے بعد ان کی قبر پر کھڑے ہوئے ، ان کے لیے دعا کی ، پھر واپس ہوئے ۔ حضرت احنف ؓ ایک جنازہ میں شریک ہوئے۔ تدفین کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے دعا کی۔ حضرت علیؓ نے یزید بن المکفف کی نمازجنازہ پڑھائی، پھر قبر کے پاس گئے اوروہاں دعا کی۔
(المصنف ،حوالہ سابق ، ص ۴۳۸)
ان احادیث اور آثار صحابہ کی بنا پر فقہا کرام اور اصحابِ فتاویٰ نے تدفین کے بعد میت کے لیے دعاو استغفار کا اثبات کیا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض علما کے بیانات اورچند فتاویٰ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔
مولانا مجیب اللہ ندویؒ نے لکھا ہے :
’’دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے ہوکر میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا سنت ہے .....لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ انتظار کریں اور جب قبربرابر ہوجائے توسب ایک ساتھ مل کر دعا کریں ، بلکہ ہر شخص کوالگ الگ دعائے مغفرت کرنی چاہیے ۔ اگر ایک ساتھ دعا کریں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
(اسلامی فقہ ، تاج کمپنی دہلی ،۱۹۹۲ء، جلد اول ، ص ۳۱۷)
مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی (پاکستان ) فرماتے ہیں :
’’تدفین کے بعد میت کے لیے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے ، جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ‘‘
(ماہ نامہ محدث لاہور، جنوری ۲۰۰۱ء ، کالم ’ دارالافتاء ‘ کے تحت ایک سوال کا جواب بہ عنوان ’ جنازےکے بعد میت کے لیے دعا کرنا ‘)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے :
’’تدفین کے بعد قبر پر میت کے لیے دعا واستغفار مستحب ہے ۔‘‘ (پھر حضرت عثمانؓ سے مروی مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد مزید لکھاہے ) ’’ چنانچہ فقہا نے بھی تدفین کے بعد دعا کومستحب قرار دیا ہے ۔ دعا میں چوں کہ ہاتھ اُٹھانے کی گنجائش ہے ، اس لیے ہاتھ اُٹھا سکتا ہے ، البتہ دعا کے وقت قبلہ کی طرف رُخ ہو ، نہ کہ قبر کی طرف ۔ قبر کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے سے فقہا نےمنع کیا ہے ۔‘‘
(کتاب الفتاویٰ ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند،۲۰۰۵ء: ۳/۱۹۷۔۱۹۸)
عالم عرب کے علما اور اصحابِ فتاویٰ نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
’’تدفین کے بعد میت کے لیے دعا کی شریعت میں اجازت ہے ۔ یہ دعا میت کا بیٹا بھی کرسکتا ہے اور دوسرے لوگ بھی۔‘‘ (سائٹ:islamQA.com، فتویٰ نمبر۱۷۴۷۱۵)
شیخ ابن بازؒ نے لکھا ہے :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہےکہ دفن کے بعد میت کے لیے دعا کی جائے۔ ہر آدمی الگ الگ دعا کرسکتا ہے اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی دعا کرے اور بقیہ لوگ آمین کہیں ۔‘‘ (فتاویٰ الشیخ ابن بازؒ: ۱۳؍۲۰۴)
شیخ صالح بن فوزان الفوزان ؒ اور شیخ ابن عثیمینؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔اللجنۃ الدائمۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ نے بھی یہی رائے دی ہے (مجموع فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ بالسعودیۃ ، جلد ۲۶)
ان تمام فتاویٰ میں دلیل کے طور پر حضرت عثمان بن عفانؓسے مروی درج بالاحدیث نقل کی گئی ہے ۔جہاں تک میت کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے فوراً بعد دعا کرنے کا تعلق ہے تویہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔