میراث کے چند مسائل

میری والدہ کا انتقال ۲۰۰۰ء میں ہوگیا تھا ۔ والد صاحب الحمداللہ ابھی حیات ہیں ۔ میری تین بہنیں ہیں ۔ دو شادی شدہ اورایک طلاق یافتہ ۔ والدہ کی وفات کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی ۔ میرا بھی نکاح ہوچکا ہے ۔ میری والدہ کی دوبہنیں اورتین بھائی تھے ۔ان میں سے والدہ کے علاوہ ان کی ایک بہن اورایک بھائی کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ابھی ایک بہن اورایک بھائی باحیات ہیں ۔ میری والدہ کے کچھ زیورات ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ شرعی طریقے سے ان کی تقسیم ہو جا ئے ۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

کسی شخص کا ، خواہ وہ مرد یا عورت، انتقال ہوتواس کی جملہ مملوکہ اشیاء اس کے قریبی رشتے د ا ر وں میں تقسیم ہوں گی ۔ آپ کی والدہ کی ملکیت میں اگر زیورات کے علاوہ کچھ اورچیزیں بھی رہی ہوں توانہیں بھی درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کرنا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ مستحقینِ وراثت خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ کسی بھی عمر کے ہوں ، حتّٰی کہ رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کا بھی حصہ لگتا ہے ۔ آپ نے جوتفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق درج ذیل افراد مستحقِ وراثت ہوں گے۔
۱- مرحومہ کے شوہر یعنی آپ کے والد پچیس فی صد کے مستحق ہیں ۔قرآن مجید میں ہے کہ کسی عورت کا انتقال ہواور وہ صاحبِ اولاد ہو تواس کے شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے (النساء: ۱۲)
۲- وفات پانے والی عورت کی کئی لڑکیاں ہوں تووہ دوتہائی مالِ وراثت کی حق دار ہوتی ہیں ۔ لیکن اگر اس کا لڑکا بھی ہوتوسب ’عصبہ ‘ ہوجاتے ہیں ۔ اس صورت میں باقی مال وراثت ان کے درمیان ۱:۲ کے تناسب سے تقسیم ہوگا ۔ یعنی ایک لڑکے کودو لڑکیوں کے برابر ملے گا ۔ (النساء:۱۱) بہ الفاظ دیگر باقی مال وراثت (۷۵؍فی صد ) میں سے پندرہ پندرہ فی صد آپ کی ہر بہن کو اورتیس (۳۰) فی صد آپ کو ملے گا ۔
۳- اولاد کی موجودگی میں بھائی بہنوں کوکچھ نہیں ملتا۔