نقل ِ مکانی کی صورت میں عورت کا حق حضانت

’بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق‘ کے زیر عنوان بعض سوالات کے جو جوابات دیے گئے ہیں ، ان کی ایک شق سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ لکھا گیا ہے کہ ’’عام حالات میں بچے کو وہیں رکھنا ضروری ہے، جہاں اس کے باپ کا قیام ہو، اس لیے ماں باپ میں سے کوئی بھی اگر دوسری جگہ منتقل ہو رہا ہو تو ماں کا حق ِ حضانت ساقط ہوجائے گا۔‘‘ آگے اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’بچے کا حقیقی ولی باپ ہے، اگرچہ ماں یا اس سلسلے کی کوئی دوسری عورت بچے کا حق حضانت رکھتی ہو، لیکن بچے کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا حق باپ کا ہے۔ اگر وہ بچے کو کسی ایسی جگہ (لے جانا چاہے) جہاں باپ اس کی نگرانی اور نگہ داشت نہیں کرسکتا تو وہ حق حضانت کھو دیتی ہے۔‘‘ موجودہ دور میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں ۔ شادیاں دور دراز کے علاقوں سے ہونے لگی ہیں ، پھر لڑکے کی ملازمت یا کاروبار اپنے وطن سے دور کسی جگہ ہو تو شادی شدہ جوڑا وہاں رہنے لگتا ہے۔ اب اگر نا اتفاقی کی بنا پر زوجین کے درمیان علیٰحدگی ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی بچہ ہو تو ظاہر ہے کہ علاحدگی کے بعد محض بچے کی پرورش کے لیے اس کی ماں اس شہر میں نہیں رکے گی، جہاں بچے کا باپ رہتا ہے۔ بل کہ اس شہر میں آجائے گی جہاں اس کے ماں باپ یا کوئی قریبی عزیز رہتا ہے اور اگر اس کا دوسرا نکاح ہوجائے تو وہ اپنے شوہر کے شہر میں منتقل ہوجائے گی۔ کیا اس نقل ِ مکانی کی بنا پر عورت اپنے حق حضانت سے محروم ہوجائے گی؟
جواب

زیر بحث مسئلے کی دو شقیں ہیں : ایک باپ کا حق ولایت، دوسری نقل ِ مکانی کی صورت میں مستحق حضانت کا حق باقی رہنا یا ختم ہوجانا۔
زوجین کی کسی وجہ سے علاحدگی ہوجائے اور ان کے درمیان ایک بچہ ہو تو باپ کا حق ولایت ہر حال میں قائم رہتا ہے، چاہے بچہ کسی کی بھی پرورش میں ہو۔ ولایت میں اس سے ملنا جلنا، اس کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرنا، اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا اور اس کی کفالت کرنا سب چیزیں شامل ہیں ۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ چیز اسلام کے نظامِ خاندان کے عین مطابق ہے۔
بچہ ماں کی پرورش میں ہو اور ماں اس شہر سے جہاں بچے کا باپ رہتا ہے، کسی دوسرے شہر میں منتقل ہوجائے تو اس کا حق حضانت باقی رہتا ہے یا نہیں ؟ اس کی تفصیلات و جزئیات میں فقہا کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ ماں کے نقل مکانی کی صورت میں باپ ولایت کی ذمہ داری ادا کر پائے گا یا نہیں ؟ جن فقہاء کے نزدیک اس صورت میں باپ فرائض ولایت کی انجام دہی سے قاصر رہے گا وہ ماں کا حق ِ حضانت ساقط قرار دیتے ہیں اور جو فقہا سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی باپ بچے کی خبر گیری اور کفالت کرسکتا ہے وہ ماں کا حق حضانت باقی رکھتے ہیں ۔
فقہائے ثلاثہ (امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ) کہتے ہیں کہ اگر ماں دوسرے شہر منتقل ہوجائے تو حق حضانت باپ کو حاصل ہوجائے گا، تاکہ وہ بچے کی تربیت، تادیب اور تعلیم کا نظم کرسکے۔ قاضی شریح نے ایک موقع پر یہی فیصلہ کیا تھا۔ امام احمدؒ سے ایک دوسری روایت یہ ہے کہ اس صورت میں بھی ماں کو حق ِ حضانت حاصل رہے گا۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ اگر ماں اپنے وطن (جہاں رہتے ہوئے اس کا نکاح ہوا تھا) منتقل ہوئی ہو تو اس کا حق حضانت باقی رہے گا اور اگر اس کا نقل مکانی کہیں اور ہوا ہو تو یہ حق باپ کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ امام ابو حنیفہؒ سے ایک دوسری روایت یہ منقول ہے کہ اگر ماں شہر سے منتقل ہوکر گاؤں میں جا رہی ہے تو حق حضانت باپ کو حاصل ہوجائے گا، لیکن اگر وہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو رہی ہے تو اس کا استحقاق باقی رہے گا۔
فقہاے کرام کی یہ آراء اپنے زمانے کے اعتبار سے ہیں ۔ پہلے سفر میں بہت دشواریاں تھیں ۔ راستے پر خطر رہتے تھے، ذرائع نقل و حمل محدود تھے، ایک جگہ سے دوسری جگہ اگر دور ہو تو وہاں پہنچنا بہت زحمت طلب ہوتا تھا اور کافی وقت بھی لگتا تھا۔ اس لیے انھوں نے یہ راے دی کہ ماں کے دوسرے جگہ منتقل ہوجانے کی صورت میں اس کا حق حضانت ساقط ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس صورت میں حق ولایت سے باپ کی محرومی لازم آتی تھی۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں ۔ راستے پر امن ہیں اور دور دراز مقامات تک بھی بہ آسانی اور کم سے کم وقت میں پہنچا جاسکتا ہے۔ فقہ کا اصول ہے کہ زمانہ اور حالات بدلنے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں ۔ اس لیے آج کے دور میں محض نقل مکانی کو ماں کے استحقاق حضانت سے محرومی کی بنیاد بنانا درست نہیں معلوم ہوتا۔
عصر حاضر میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ سید سابق نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’فقہ السنۃ‘ میں فقہاے کرام کے مذکورہ بالا اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’یہ تمام اقوال، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، کسی ایسی دلیل پر مبنی نہیں ہیں جس پر دل مطمئن ہوجائے۔ صحیح بات یہ ہے کہ بچے کے ماں باپ میں سے کوئی دوسری جگہ منتقل ہورہا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ بچے کا ان میں سے کس کے پاس رہنا اس کے حق میں بہتر اور زیادہ فائدہ مند ہے۔ بچے کا فائدہ، اس کی نگرانی اور حفاظت ماں باپ میں سے جس کے پاس زیادہ ہو اسی کے پاس بچے کو رکھا جائے گا۔ اس معاملے میں منتقلی یا عدم منتقلی کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
(فقہ السنۃ، دار الکتاب العربی، بیروت ۱۹۸۳ء، ۲/۳۵۲)