نماز عید میں خواتین کی شرکت

یہاں ہمارے علاقے میں عیدالفطر کی نماز میں خواتین کی شرکت باعث ِ نزاع بن گئی ہے۔ چوں کہ نماز عید کے موقع پر کافی تعداد میں خواتین عیدگاہ میں نماز کے لیے آئی تھیں ، مگر یہاں کے ایک مولانا صاحب نے اس پر سخت تنقید کی۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں رہا، بلکہ سنا گیا کہ انھوں نے گھر گھر جاکر خواتین کو توبہ کرنے کو کہا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کا نماز عید میں شریک ہونا جائز نہیں ۔ اس طرح خواتین کو آئندہ عیدگاہ جانے کی اجازت نہ ملنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف کچھ علماء نماز عید میں خواتین کی شرکت کو جائز ہی نہیں ، بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں ۔ براہِ مہربانی اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں ، تاکہ آیندہ صحیح فیصلہ کیا جاسکے اور نزاع سے بھی بچا جاسکے۔
جواب

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں خواتین پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے لیے مسجد اور عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازوں کے لیے عیدگاہ جایا کرتی تھیں ۔ خاص طور سے عیدین کی نمازوں کے لیے عیدگاہ جانے کی، اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف اجازت دے رکھی تھی، بلکہ آپ اس کاحکم دیا کرتے تھے اور تمام عورتوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں :
اَمَرَنَا (رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ) اَنْ نُخْرِجَ فِی الْعِیْدَیْنِ الْعَوَاتِقَ وَ ذَوَاتِ الْخُدُوْرِ ۔(۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں بالغ اور پردہ کرنے والی (لڑکیوں اور عورتوں ) کو (عید گاہ) لے جایا کریں ۔‘‘
اسی روایت میں آگے ہے کہ ایک عورت نے دریافت کیا: اگر کسی کے پاس ’جلباب‘ نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ (جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے، گھر سے باہر نکلنے کے لیے عورتیں اس کا استعمال کرتی تھیں ) آپؐ نے جواب دیا: اپنی کسی بہن سے مانگ لے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے دریافت کیا: کیا حائضہ عورتیں بھی عید گاہ جائیں ؟ آپؐ نے فرمایا:
یَعْتَزِلْنَ الصَّلاَۃَ وَ یَشْھَدْنَ الْخَیْرَ وَ دَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔(۲)
’’وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں گی اور خیر کی مجلسوں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں گی۔‘‘
آں حضرت ﷺ کی یہ تاکید اپنے گھر کی خواتین کے لیے بھی تھی۔ حضرت ابن عباسؓ اس کی گواہی ان الفاظ میں دیتے ہیں :
اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یُخرِجُ بَنَاتَہٗ و نِسائَ ہ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔(۳)
’’نبی ﷺ اپنی صاحب زادیوں اور خواتین کو عیدین میں (عیدگاہ) لے جایا کرتے تھے۔‘‘
عہد نبویؐ میں خواتین کے عیدگاہ جانے کے دو مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ وہ نماز میں شریک ہوں اور اس کے بعد خطبہ سنیں ، جس سے ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور ان میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کا جذبہ ابھرے۔ اسی مقصد کی خاطر بسا اوقات رسول اللہ ﷺ نماز اور خطبے سے فارغ ہوکر عورتوں کے مجمعے کی طرف تشریف لے جاتے تھے اور ان کے درمیان بھی وعظ و ارشاد فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔ اس کے بعد عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس وقت آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ آپؐ کا وعظ سن کر عورتیں بہت متاثر ہوئیں اور اپنے زیور: گلے کاہار، کان کی بالیاں ، انگوٹھیاں وغیرہ نکال نکال کر حضرت بلالؓ کو دینے لگیں ۔ (۱) دوسرا مقصد یہ تھا کہ عیدگاہ میں مردوں کے ساتھ عورتوں اور بچوں کی موجودگی سے مسلمانوں کی جمعیت بڑی نظر آئے۔ فقہاء نے ان دونوں مقاصد کا تذکرہ کیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے دونوں اقوال منقول ہیں ۔ (۲)
بعد میں جب مسلمان بڑی تعداد میں ہوگئے تو محض تعداد بڑھانے کے لیے عورتوں کو عیدگاہ میں جمع کرنے کی ضرورت نہ رہی، دوسری طرف مسلمان عورتوں میں پردہ کا اہتمام باقی نہ رہا اور خوب بناؤ سنگار کرکے گھر سے باہر نکلنے کا رجحان بڑھا، نیز دوسروں کی طرف سے فتنہ برپا کرنے کے مواقع پیدا ہوگئے تو عورتوں کا مسجد اور عیدگاہ جانا ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ عہد صحابہ و تابعین ہی میں ایسا ہونے لگا تھا۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’اب عورتوں کا جو حال ہوگیا ہے، اگر اسے رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انھیں اسی طرح مسجد جانے سے منع کردیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا تھا۔‘‘ (۳) اور متعدد تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں مروی ہے کہ وہ عورتوں کو عیدگاہ جانے سے منع کیا کرتے تھے، مثلاً حضرت عروہ بن الزبیرؒ، قاسمؓ، یحيٰ الانصاریؓ،امام مالکؒ ابو یوسفؒ وغیرہ۔ (۴)
فقہاء کا خیال ہے کہ فتنہ کے اندیشے سے جوان، خوب صورت اور سربرآوردہ طبقے کی خواتین کا عیدگاہ جاکر نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ رہیں عام عورتیں تو ان کا نکلنا اور مردوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنا مستحب یا مباح ہے۔ البتہ انھیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ بھڑکیلے کپڑے نہ پہنیں ، خوشبو نہ لگائیں اور بناؤ سنگار نہ کریں ۔ (۵)
مشہور شافعی فقیہ امام نوویؒ نے لکھا ہے:
’’ہمارے اصحاب (یعنی شافعی فقہاء) نے کہا ہے کہ سربرآوردہ طبقے کی اور خوب صورت خواتین کے علاوہ دیگر عورتوں کا عیدین میں نکلنا مستحب ہے۔ خوب صورت اور پردہ کی عمر کو پہنچ جانے والی عورتوں کا نکلنا مناسب نہیں ، اس لیے کہ اب زمانہ خراب ہوگیا ہے، جب کہ عہد نبوی میں حالات پر امن تھے اور فتنہ و فساد کا اندیشہ نہیں تھا۔‘‘ (۱)
اور حنبلی فقیہ حافظ عبد الرحمن بن علی الجوزیؒ فرماتے ہیں :
’’عورتوں کا (نماز عید کے لیے) نکلنا مباح ہے، لیکن اگر ان کی وجہ سے یا ان کے بارے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو نہ نکلنا افضل ہے۔ کیوں کہ صدر اول کی عورتوں کا معاملہ اس زمانے کی عورتوں سے مختلف تھا۔ اسی طرح صدر اول کے مردوں کا معاملہ بھی آج کے مردوں سے مختلف تھا۔‘‘ (۲)
فقہائے احناف نے عیدگاہ جانے، نہ جانے کے معاملے میں جوان اور بوڑھی عورتوں کے درمیان فرق کیا ہے۔ان کے نزدیک جوان اور خوب صورت عورتوں کے لیے جمعہ و عیدین کی نمازوں کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ بوڑھی عورتوں کے لیے اس کی رخصت ہے۔ بہ ہر حال افضل دونوں کے لیے یہی ہے کہ گھر میں نماز ادا کریں ۔ (۳)
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ عورتوں کے عیدگاہ جانے اور مردوں کے ساتھ نماز ِ عید میں شریک ہونے کے معاملے میں نہ تو بہت زیادہ سختی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ کھلی چھوٹ ہونی چاہیے۔ جن علاقوں میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو، وہاں کی عیدگاہ یا جامع مسجد میں عورتوں کی نماز کے لیے علاحدہ خصوصی اہتمام ہوتا ہو اور مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر ضروری اختلاط سے بچا جاسکتا ہو، وہاں تو عورتیں نماز عید کے لیے جاسکتی ہیں ، لیکن جہاں اس کے برعکس معاملہ ہو، وہاں انھیں عیدگاہ نہ جانا چاہیے۔ جو عورتیں عیدگاہ کے لیے نکلیں انھیں بناؤ سنگار، خوشبو اور زرق برق کپڑوں سے اجتناب اور پردے کا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔
آخر میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عورتوں کو نماز کے لیے مسجد یا عیدگاہ جانے کی اجازت تو دی گئی ہے، لیکن متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔