نماز میں دورانِ قیام ہاتھ باندھنا

کچھ لوگ نماز میں دوران قیام ہاتھ باندھتے ہی نہیں ہیں ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ایسا کرنے والے لوگ کون ہیں اوران کے دلائل کیا ہیں ؟
جواب

جمہور علما (احناف ، شوافع اورحنابلہ ) کے نزدیک نمازی کو چاہیے کہ وہ دوران قیام ہاتھ باندھے، اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کورکھے ۔ ایسا کرنا سنت سے ثابت ہے:
حضرت وائل بن حجر ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کو رکھا ۔(مسلم۴۰۱:)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ میرا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ کے اوپر تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے ۔ آپؐ نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر اسے بائیں ہاتھ کے اوپر کردیا۔ (ابن ماجہ۸۱۱:)
البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں :
۱- فرض نمازوں میں ہاتھ چھوڑے رہنا مستحب اورہاتھ باندھنا مکروہ ہے ، البتہ نفل میں اس کی اجازت ہے ۔ اسے المدوّنۃ میں ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے ۔
۲- فرض اورنفل تمام نمازوں میں ہاتھ باندھنا جائز ہے ۔ اس کی روایت امام مالک سے اشہب اورابن نافع نے کی ہے۔
۳- تمام نمازوں میں ہاتھ باندھنا ممنوع ہے ۔ اس کی روایت باجیؒ نے امام مالک سے کی ہے۔ فقہ مالکی میں اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ مقصود نماز میں دورانِ قیام حالتِ سکون میں رہنا ہے اوریہ مقصود ہاتھ چھوڑے رہنے میں زیادہ بہتر طریقے سے حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ مالکی فقہا مطرّف اور ابن ما جشون نے امام مالک سے ایک قول دوران قیام ہاتھ باندھنے کا بھی نقل کیا ہے۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت، ۳؍۹۴ بہ عنوان ’الارسال ‘)