نکاح میں نام کی غلطی

ایک صاحب کی دو لڑکیاں ہیں :عارفہ (بڑی لڑکی) صالحہ (چھوٹی لڑکی)۔ بڑی لڑکی کا کئی برس قبل نکاح ہوچکا تھا۔اب چھوٹی لڑکی کا نکاح ہوا۔ اسی نے ایجاب کیا، اسی کی رخصتی ہوئی، اسی کے ساتھ دولہا نے شب زفاف گزاری۔غلطی یہ ہوئی کہ نکاح کے وقت وکیل نے چھوٹی لڑکی (صالحہ) کے بجائے بڑی لڑکی (عارفہ) کا نام بتا دیا، دولہا نے اسی نام کے ساتھ قبول کیا، اگلے دن نکاح نامہ دیکھا گیا تو اس پر بڑی لڑکی کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس پر درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں : n کیا یہ نکاح فاسد ہے؟ n کیا چھوٹی لڑکی (صالحہ) کا نکاح نہیں ہوا؟ n صالحہ کے ساتھ شب باشی کا کیا حکم ہوگا؟ n کیا صالحہ کے ساتھ نکاح کے لیے استبراء رحم کی ضرورت ہوگی؟
جواب

نکاح میں اگر لڑکی متعین ہو، مثلاً وہ مجلس نکاح میں موجود ہو اور اس کی طرف سے ایجاب ہو تو اس کے نام میں غلطی سے نکاح فاسد نہیں ہوتا۔ صورتِ مسئولہ میں دو ہی لڑکیاں ہیں ۔ بڑی لڑکی شادی شدہ ہے، اس لیے وہ محلِّ نکاح ہو ہی نہیں ہوسکتی، جب کہ نکاح کے وقت لڑکیوں کے باپ، وکیل، نکاح پڑھانے والے، دولہا، دونوں خاندانوں ، مجلس نکاح میں شریک تمام لوگوں ، ہر ایک کو معلوم تھا کہ نکاح چھوٹی لڑکی کا ہورہا ہے، اس لیے اس نکاح کو درست مانا جائے گا۔ چھوٹی لڑکی (صالحہ) کا ہی نکاح ہوا ہے، چاہے غلطی سے بڑی لڑکی (عارفہ) کا نام لیا گیا ہو۔
شب باشی میں کیا گیا جنسی تعلق حلال ہے۔ استبراء رحم کی ضرورت نہیں ۔ صرف نکاح نامہ میں نام کی درستی کافی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔
بعض فتاویٰ میں لکھا گیا ہے کہ عقد نکاح کے وقت لڑکی کے نام میں غلطی ہوجائے تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ یہ بات علیٰ الاطلاق صحیح نہیں ہے۔ اگر لڑکی متعین ہو تو نام میں غلطی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اگر مقامی سطح پر بعض علما نکاح کو فاسد کہہ رہے ہوں اور دوبارہ نکاح پڑھانے کو ضروری قرار دیتے ہوں تو بہتر ہے کہ از سر نو نکاح کی کارروائی کر لی جائے۔