وراثت میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہونے کی بعض صورتیں

(۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا تقسیم وراثت میں کوئی ایسی صورت ہوسکتی ہے کہ عورت اپنے برابر رتبےوالے مرد (Male of equal rank) سے زیادہ پائے؟ بعض حضرات احکام وراثت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ ملتا ہے ، لیکن وہ یہ صراحت نہیں کرتے کہ کیا ایسا ایک رتبے(Same rank) والے مرد اورعورت کے معاملے میں بھی ہوتا ہے ۔ (۲)پروفیسر ضیاء الحسن نے اپنی کتاب ’عورتوں کا مرتبہ اوران کے حقوق‘ (ص ۸۷) میں لکھاہے:’’ کسی کسی حالت میں عورت کومرد سے زیادہ وراثت میں حصہ ملتا ہے ، جیسے کہ عورت کا انتقال ہوجائے ، جب کہ شوہر ، ماں ، دوبھائی اورایک بہن حیات ہوں ۔ ایسی صورت میں بہن کوچھٹا حصہ ملتا ہے اوربھائی کو بارہواں حصہ‘‘۔ کیا یہ صحیح ہے؟ میرے خیال میں توبھائی بہن کوبقیہ حصے میں برابر برابر ملے گا۔
جواب

اسلامی نظامِ وراثت پر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ اس میں عورت کا حصہ ہرحال میں مرد کے مقابلے میں کم تر ہے ، بلکہ اس میں بعض صورتوں میں دونوں کوبرابر ملتا ہےاور بعض میں عورت کومرد کے مقابلے میں زیادہ ملتا ہے ۔ تقسیم کی یہ صورتیں حکمت پر مبنی ہیں ۔
مرد اور عورت کوبرابر ملنے کی بعض صورتیں درج ذیل ہیں :
(۱) ’’اگر کسی شخص کا انتقال ہو اوراس کی او لاد بھی ہو اور ماں باپ بھی تو ماں باپ دونوں کوبرابر چھٹا حصہ ملے گا ‘‘۔ (النساء۱۱)
(۲) اگر کوئی عورت لا ولد ہواوراس کے وارثین میں صرف شوہر اورایک بہن ہوتو دونوں کو نصف نصف ملے گا۔ محض جنس کی بنیاد پرعورت (بہن) کو کم اور مرد(شوہر )کو زیادہ نہیں دیا جائے گا۔
(۳) اگر مرنے والے کا ایک ہی وارث ہوتووہ پورے ترکے کا حق دار قرار پاتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔ مثلاً کسی شخص کا صرف ایک بیٹا ہوتووہ اس کے پورے ترکے کا حق دار ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی صرف ایک بیٹی ہوتو اسے بھی پورا ترکہ ملے گا۔ نصف تو اس کا متعینہ حصہ ہوگا اورنصف اسے بہ طور ’رد‘ کے ملے گا۔
(۴) بعض صورتوں میں حقیقی بھائی ا وربہن کا حصہ برابر ہوجاتا ہے ۔ جیسے ایک عورت نے شوہر اور ایک حقیقی بھائی کوچھوڑا ہو توترکے کا نصف شوہر کا اورنصف بھائی کا ہوگا ۔ اسی طرح اگراس نے شوہر اور حقیقی بہن کو چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی نصف شوہر کا ہوگا اور نصف حقیقی بہن کا ۔
وراثت کی متعدد صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں عورت کو مرد کے مقابلے میں زیادہ ملتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کے وارثین میں ماں ، باپ اورایک بیٹی ہو تو ماں کو چھٹا حصہ اور باپ کو تہائی حصہ ملے گا ، جب کہ بیٹی کا حصہ نصف ہوگا۔
عورت اور مرد برابر رتبے کے ہوں تب بھی بسا اوقات وراثت میں عورت کو مرد سے زیادہ ملتا ہے ۔ اس کی بعض صورتیں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنی کتاب’ خواتین کے مالی حقوق ‘ (شائع کردہ دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نئی دہلی ) میں بیان کی ہیں ۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں :
(۱) کسی عورت کا انتقال ہو اوراس نے ماں ، باپ ، شوہر اوردوبیٹوں کو چھوڑا ہو تو ماں اورباپ ہر ایک کو چھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%) اورشوہر کوچوتھائی حصہ (۲۵%) ملے گا ۔ بقیہ ( ۴۱ء۶۷%) دو بیٹوں کے حصے میں آئے گا اورہر ایک کو(۲۰ء۸۳%) ملے گا ۔اور اگر عورت نے ماں ، باپ، شوہراوردوبیٹیوں کوچھوڑاہوتوماں اورباپ ہر ایک کو(۱۳ء۳۳%) اورشوہر کو(۲۰%)ملے گا۔ دونوں بیٹیوں کے حصے میں (۵۳ء۳۳%) آئے گا اور ہر بیٹی کو(۲۶ء۶۷%) ملے گا ۔ اس صورت میں بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں زیادہ ملے گا۔
(۲) اگر کسی عورت کے ورثہ میں شوہر ، ماں اور دو حقیقی بہنیں ہوں تو ماں کو آٹھواں حصہ (۵ء۱۲%) ، دونوں بہنوں کو نصف حصہ (۵۰%) اورشوہر کو(۵ء۳۷%) ملے گا ۔اور اگر عورت کے ورثہ میں شوہر ، ماں اور دو حقیقی بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%)،دو حقیقی بھائیوں کوتہائی حصہ(۳۳ء۳۳%) اورشوہر کو نصف (۵۰%) ملے گا ۔ اس صورت میں ہر بھائی کوچھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%) اورہر بہن کوچوتھائی (۲۵%)ملے گا۔
ان دونوں صورتوں میں عورت کا مقررہ حصہ اس حصے سے بڑھ جاتا ہے جومرد کوبہ طور عصبہ ملتا ہے۔
(۳) بعض صورتوں میں عورت نصف ترکہ کی مستحق ہوتی ہے ۔یہ اس کا مقررہ حصہ ہے ، جب کہ اس کے ہم درجہ مرد کا حصہ کم بنتا ہے ۔ جیسے ایک عورت نے ماں ، باپ ، شوہر اور ایک بیٹی کوچھوڑا ہوتو ماں ، با پ میں سے ہر ایک کو(۱۵ء۳۸%) ، شوہر کو(۸ء۲۳%) اوربیٹی کو(۱۵ء۴۶%) ملے گا۔ اور اگر بیٹی کی جگہ بیٹا ہوتو ماں ، باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%)، شوہر کو چوتھائی (۲۵%) اوربیٹے کو(۴۱ء۶۷%) ملے گا ۔ اس میں بیٹی کا حصہ بیٹے کے مقابلے میں زیا د ہ ہوا۔
(۴) بعض صورتوں میں تو یہ فرق بہت زیادہ ہوجاتا ہے ۔ جیسے کسی عورت کے ورثہ میں ماں ، شوہر اورحقیقی بہن ہوتو ماں کا حصہ چوتھائی (۲۵%)، شوہر اور بہن میں سے ہر ایک کا (۵ء۳۷%)ہوگا۔اورا گر بہن کی جگہ بھائی ہوتو شوہر کا حصہ نصف (۵۰%)ماں کا تہائی (۳۳ء۳۳%) اوربھائی کا چھٹا (۱۶ء۶۷%) ہوگا۔ اس صورت میں بہن کاحصہ بھائی کے مقابلے میں دوگنے سے زیادہ ہوگا ۔
(۵) بعض صورتوں میں وراثت میں عورت کا مقررہ حصہ تہائی ہوتا ہے ، لیکن وہ بھی اپنے مقابل رشتے دار سے زیادہ ہوتاہے۔ مثلاً ایک شخص نے ماں ، بیوی ، دو حقیقی بھائی اور دوماں شریک بہنوں کو چھوڑا ہوتو ماں کو چھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%) اور بیوی کو چوتھائی حصہ (۲۵%) ملے گا ۔ دو حقیقی بھائیوں کا حصہ چوتھائی (۲۵%)اور دو ماں شریک بہنوں کا حصہ تہائی (۳۳ء۳۳%) ہوگا۔ اس صورت میں بہنوں کو بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ ملے گا۔
اس طرح کی اوربھی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں ، جن میں عورت وراثت میں اپنے ہم درجہ مرد رشتے دار سے زیادہ حصہ کی مستحق ہوتی ہے۔
پروفیسر ضیاء الحسن کی کتاب کےحوالے سے وراثت کی ایک صورت میں مستحقین کے جوحصے بتائے گئے ہیں ، وہ درست نہیں ہیں ۔ اگر کسی عورت کا انتقال ہوا اوراس کے ورثہ میں ماں ، شوہر، دوبھائی اور ایک بہن ہوتو ماں کو چھٹا حصہ (۱۶ء۶۷%) اورشوہر کو نصف حصہ (۵۰%)ملے گا۔ بقیہ کے پانچ حصے کیے جائیں گے ۔ ایک حصہ بہن کو اوردو دو حصے ہر بھائی کو ملے گا۔ بہ الفاظ دیگر بہن کو(۶ء۶۷%) اور بھائی کو(۱۳ء۳۳%) ملے گا۔