ورثا کے حق میں وصیت

صوبائی حکومت کاشت کی زمین میں وراثت میں بیٹی کو حصہ نہیں دیتی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کا حصہ مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے بیٹیاں وراثت سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ تو کیا اضطراری حالت میں بیٹی کے حق میں وصیت کرکے اسے حصہ دیاجاسکتا ہے؟ حالاں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مستحقینِ وراثت کے حق میں وصیت کی ممانعت فرمائی ہے۔ دیگر متبادل کی ﻻﻻبھی نشان دہی فرمائیں ۔
جواب

اللہ تعالیٰ نے مستحقینِ وراثت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا ہے۔ اگر کسی شخص کی اولادوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو اس کےانتقال پر لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی وراثت میں حصہ پائیں گی۔ مالِ وراثت چاہے کم سے کم ہو یا زیادہ سے زیادہ اور چاہے اس میں ایسی چیزیں شامل ہوں جنہیں صرف مرد استعمال کرتے ہیں ، عورتیں اور لڑکیاں اس سے محروم نہیں ہوں گی، بلکہ ان کا بھی حصہ لگایا جائے گا۔ سورۂ نساء میں یہ احکام تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ (ملاحظہ کیجئے آیت نمبر ۷)
احکامِ وراثت کا نفاذ کسی شخص کے مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں ، اس کے مرنے کے بعد لڑکے مالِ وراثت پر قابض ہوجائیں اور اپنی بہنوں کو کچھ نہ دیں تووہ گنہ گار ہوں گے۔ چنانچہ قرآن مجید میں احکام وراثت بیان کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے صراحت سے یہ بھی ارشاد فرمایاہے کہ ’’جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ انگاروں سے بھرتے ہیں ‘‘۔ (النساء: ۱۰)
شریعت میں جن لوگوں کو میراث کا مستحق قرار دیاگیا ہے اور ان کے حصے متعین کردیے گئے ہیں ، ان میں سے کسی کو مزید فائدہ پہنچانے کے لیے اس کے حق میں وصیت کرنی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں اس کی صریح ممانعت آئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنّ اللہَ قَسَّمَ لِکُلِّ وَارِثٍ نَصِیْبَہ مِنَ الْمِیْرَاثِ فَلَا یَجُوْزُ لِوَارِثٍ وَصِیَّۃٌ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب لاوصیۃ لوارث، ۲۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ متعین کردیا ہے۔ اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے ‘‘۔
اگر کسی شخص کو قوی اندیشہ ہو کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی لڑکی یا لڑکیاں وراثت پانے سے محروم ہوجائیں گی، یا بعض ایسے ملکی قوانین ہوں جو لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرتے ہوں ، تو کیا وہ اپنی زندگی میں ان کے حصۂ شرعی کے بہ قدرِ وصیت رجسٹرڈ کراسکتا ہے؟ اس سوال پر علماء نے غور کیا تو ان کی یہ رائے ہوئی کہ کسی مستحقِ وراثت کو اس کا حصہ ملنا یقینی بنانے کے لیے اس کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے۔
اسلامک فقہ اکیڈمی( انڈیا) ہندوستانی مسلمانوں کا ایک معتبر پلیٹ فارم ہے، جو نئے پیش آمدہ مسائل میں ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔ اس کے ۲۳ ویں فقہی سیمینار منعقدہ گجرات، یکم تا ۳؍ مارچ ۲۰۱۴ء میں یہ موضوع زیر بحث آیا تھا۔ اس موقع پر متفقہ طور سے جو فیصلہ کیاگیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
l ’’جن ممالک میں اسلام کا قانون میراث جاری نہیں ہے اور وصیت کے بغیرورثہ کو ان کا شرعی حق نہ مل سکے وہاں اس طرح کا وصیت نامہ لکھنا واجب ہوگا جو مورث کی موت کے بعد قانونِ شریعت کے مطابق ترکہ کی تقسیم کا ذریعہ بن سکے۔
l ورثہ کے حصص شرعیہ کا وصیت نامہ لکھنا حدیث ’’لَاوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ‘‘ (وارث کے لیے وصیت کا اعتبار نہیں )کے خلاف نہ ہوگا، کیوں کہ اس حدیث کا مصداق وہ وصیت ہے جس میں کسی وارث کو ضرر پہنچانا مقصود ہو۔
l وارث کے حق میں حق شرعی سے زائد کی وصیت کرنا معتبر نہیں ، البتہ اگر دوسرے ورثہ راضی ہوں تو اس کا اعتبار ہوگا اور ورثہ کی یہ رضامندی مورث کی موت کے بعد ہی معتبر مانی جائے گی۔
l ترکہ کی تقسیم میں اختلاف سے بچنے کے لیے اگر مورث اپنی زندگی میں ہی اپنے ترکہ کی، حصۂ شرعی کے مطابق تقسیم کے لیے تحریر لکھ دے تو یہ جائز ہے، البتہ اگر وارث کی موت سے پہلے ورثہ کی تعداد میں اضافہ یا کمی ہوجائے تو اس نئی صورتِ حال کے مطابق ہی ترکہ کی تقسیم ہوگی ‘‘۔
(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کےفیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، نئی دہلی۔ ۲۰۱۴ء، ۱۳۷۔۱۳۸)