وصیت کس قدر کی جا سکتی ہے؟

کوئی شخص جس کی دو شادی شدہ لڑکیا ں ہیں ، لڑکا کوئی نہیں ہے، لڑکیوں کی اجازت کے بعد کیا وہ اپنی تمام جائیداد بیوی کے نام وصیت کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، بیوی کے بعد وہ جائداد لڑکیوں ہی کی ہوگی۔ اگر پوری جائیداد کی وصیت بیوی کے حق میں جائز نہیں تو کس قدر کی جا سکتی ہے؟
جواب

اگر ہم تین باتوں کو سمجھ لیں تو وصیت اور وراثت کے معاملات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ تین اصطلاحات ہیں :ہبہ ، وصیت اور وراثت ۔ ہبہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کا مالک ہے ،اپنی زندگی میں وہ جس کو چاہے دے، جس کو چاہے نہ دے۔وہ اپنا مال بیوی کو بھی دے سکتا ہے، بیٹے کو بھی دے سکتا ہے اور بیٹی کو بھی دے سکتا ہے۔ حتیٰ کہ قانونی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی ایک کو دے اور دوسروں کو محروم کر دے۔ اگر چہ اولاد میں فرق کرنے سے شریعت میں روکا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی شخص زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو دے اور کسی کو نہ دے، یہ غلط ہے۔ دینا ہے تو سب کو برابر دے۔ لیکن یہ حکم اخلاقی طور پر ہے۔ قانونی طور پر بہ ہر حال اسے حق ہے کہ وہ جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے محروم کر دے۔
وصیت اس کو کہتے ہیں کہ آدمی کہے کہ میرے مرنے کے بعد میرافلاں مال فلاں کو اور فلاں مال فلاں کو دے دیا جائے۔ وصیت کے بارے میں حکم ہے کہ یہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں کی جا سکتی۔ دوسری بات یہ کہ جن لوگوں کو وراثت میں حصہ ملنا ہے ان کے حق میں وصیت جائز نہیں ۔ لیکن موجودہ دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے وصیت کی ایک خاص صورت کو جائز قرار دیا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہو گیا، اس کے بعض لڑکےشر پسند اور طاقت ور ہیں ، انھوں نے سارا مال اپنے قبضے میں کر لیا اور اپنی بہنوں کو محروم کر دیا، یا لڑکوں میں بھی جو بڑا ہے وہ تیز طرار ہے ،اس نے پوری جائداد پر قبضہ کر لیا اور اپنے دیگر بھائیوں کو اس سے محروم کر دیا۔ چنانچہ فقہاء نے اجازت دی ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد اس کی وراثت شریعت کے مطابق جس طرح تقسیم ہو گی، وہ مرنے سے پہلے اس کو وصیت کی شکل میں رجسٹرڈ کرا سکتا ہے۔اس صورت کو انھوں نے اس لیے جائز قرار دیا ہے کہ اس سے کسی مستحق وارث کی حق تلفی نہیں ہو رہی ہے۔
آدمی اپنی زندگی میں اپنی پوری پراپرٹی اپنی بیوی کو دے سکتا ہے، لڑکیوں سے رضا مند ی لینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کو وصیت کا نام نہیں دیا جائے گا، بلکہ ہبہ قرار دیا جائے گا۔ پوری پراپرٹی بیوی کے نام منتقل ہو جائے گی اور بیوی کے انتقال کے بعدوراثت کی حیثیت سے اس کی تقسیم ہوگی۔