کالے خضاب کی شرعی حیثیت

میں سر اور داڑھی کے بالوں کی سفیدی دور کرنے کے لیے کالے خضاب کا استعمال کرتا ہوں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں کالا خضاب لگانے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابو قحافہ کے بارے میں حکم دیا تھا کہ ان کے بالوں کی سفیدی دور کردی جائے، لیکن کالے رنگ سے پرہیز کیا جائے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمایے کہ خضاب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا کالا خضاب استعمال کرنا پسندیدہ نہیں ہے؟ مارکیٹ میں بعض کمپنیوں کا تیار کردہ جو خضاب ملتا ہے اسے استعمال کرنے کے بعد کیا وضو اور غسل سے پاکی حاصل ہوجائے گی؟
جواب

بعض احادیث میں سفید بالوں میں خضاب لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
غَیِّرُوا الشَّیْبَ وَلاَ تَشَبَّھُوا بِالْیَھُوْدِ۔ (جامع ترمذی، ابواب اللباس، باب ماجاء فی الخضاب، حدیث: ۱۷۵۲)
’’بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔‘‘
اس مضمون کی حدیث بخاری (کتاب اللباس: ۵۸۹۹) مسلم (کتاب اللباس: ۲۱۰۳) ابو داؤد (کتاب الترجل: ۴۲۰۳) اور نسائی (کتاب الزینۃ: ۵۰۶۹) میں بھی مروی ہے۔ دوسری طرف بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ علما نے دونوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ طبریؒ فرماتے ہیں : ’’جن احادیث میں سفیدی کو بدلنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن میں اس کی ممانعت آئی ہے، دونوں صحیح ہیں ۔ ان کے درمیان تناقض نہیں ہے۔ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے تمام بال سفید ہوگئے ہوں اور ممانعت اس شخص کے لیے ہے، جس کے ابھی چند ہی بال سفید ہوئے ہوں ۔ اس معاملے میں علمائے سلف کا اختلاف احوال کے اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں حکم اور ممانعت دونوں بالاجماع وجوب کے لیے نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں نے ایک دوسرے کا رد نہیں کیا ہے۔
(بہ حوالہ شوکانی، نیل الاوطار، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر، ۱۳۴۴ھ، ۱/۱۴۶)
اسی طرح بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خضاب کا استعمال کیا ہے اور بعض احادیث میں ہے کہ آپؐ نے کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا۔ ان دونوں میں بھی تطبیق دی گئی ہے۔ طبریؒ کہتے ہیں : آں حضرت ﷺ کا معمول اکثر خضاب نہ استعمال کرنے کا تھا، البتہ بسا اوقات آپ نے اس کا استعمال کیا ہے۔ جن صحابہ نے آپؐ کو اس حال میں دیکھا انھوں نے صراحت سے بیان کردیا کہ آپ خضاب کا استعمال کرتے تھے۔‘‘
(نیل الاوطار، ۱/۱۴۷)
صدر ِ اول میں جو چیزیں بہ طور ِ خصاب مستعمل تھیں ، ان میں سے حنا (مہندی)، زعفران، ورس اور کتم کا نام احادیث میں ملتا ہے۔ ورس ایک پودا ہے، جو رنگائی کے کام میں لایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ ہلدی کے مثل زرد ہوتا ہے۔ کتم کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہوتا ہے۔ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین ِ عظام سے خضاب کا استعمال ثابت ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ صرف حنا کا خضاب لگایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ حنا میں کتم کی بھی آمیزش کرلیا کرتے تھے۔ حضرت ابن ِ عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت علیؓ اور بعض دیگر صحابہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زرد خضاب لگایا کرتے تھے۔
(نیل الاوطار، ۱/۱۴۵)
کالے خضاب کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں ۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں ، البتہ مکروہ کہتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ حافظ ابن ِ حجرؒ کہتے ہیں : ’’بعض علماء نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔‘‘ (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفۃ، بیروت، ۱۰/۳۵۴) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؓ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیوبند، ۵/۳۵۶) متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ۔ تابعین اور بعد کے مشاہیر میں ابن سیرینؒ، ابو بردہؒ، محمد بن اسحاقؒ صاحب المغازی، ابن ابی عاصمؒ، اور ابن الجوزیؒ بھی کالا خضاب استعمال کیا کرتے تھے۔ (تحفۃ الاحوذی، ۵/۳۵۵، علامہ مبارک پوری نے اور بھی بہت سے تابعین و مشاہیر کے نام تحریر کیے ہیں ۔ ۵/۳۵۷- ۳۵۸)
کتب حدیث و سیرت میں ایک روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابو قحافہ کو قبول ِ اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً نو ّے سال تھی، (ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ، دار الشعب قاہرہ، ۳/۵۸۳) حضرت ابوبکرؓ انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے۔ ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل ثغامہ کی مانند تھے۔ (ثغامہ ایک درخت کا نام ہے جس کا پھل اور پھول سفید ہوتے ہیں ۔ جب وہ خشک ہوجاتے ہیں تو ان کی سفیدی اور بڑھ جاتی ہے) اس موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: غَیِّرُو ھُمَا بِشَـْیئٍ وَ جَنِّبُوا السَّوَادَ۔ ’’ان کو یعنی ان کے بالوں کی سفیدی کو کسی چیز سے ختم کردو، البتہ انھیں سیاہ نہ کرنا۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب استحباب خضاب الشیب، مزید ملاحظہ کیجیے سنن ابن ماجہ ۳۶۳۴، مسند احمد ۳/۱۶۰، ابن حجر، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دار المعرفۃ بیروت، ۲/۱۲۳۶، ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۳/۵۸۱)
اس ممانعت کو بعض علماء نے حرمت اور بعض نے کراہت پر محمول کیا ہے۔ لیکن علامہ ابن ِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ ’’آں حضرت محمد ﷺ کا یہ ارشاد اس صورت کے لیے مخصوص تھا جب بال بہت زیادہ سفید ہونے کی وجہ سے برے لگنے لگتے ہیں ۔ اس کا اطلاق ہر ایک پر نہیں ہوتا۔ یہ بات آپؐ نے حضرت ابوقحافہؓ سے اس لیے فرمائی تھی کہ ان کے بال بہت زیادہ سفیدی کی وجہ سے برے لگنے لگے تھے۔ ابن ابی عاصمؒ کہتے ہیں : ’’اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کالے خضاب کا استعمال لوگ عموماً کیا کرتے تھے۔‘‘ ابن شہابؒ کہتے ہیں : ہم کالے خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے، جب چہرہ ترو تازہ تھا( اس پر جوانی کے آثار تھے) لیکن جب جھریاں پڑگئیں اور دانت گرگئے (ہم بوڑھے ہوگئے) تو ہم نے اسے ترک کردیا۔‘‘ (فتح الباری، ۱۰/۳۵۵)
فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بالوں کی سفیدی کو خضاب کے ذریعے دور کرنے کی اجازت مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مادّہ کو دھو دینے کے بعد بالوں پر اس کا جو رنگ چڑھ جاتا ہے وہ مانع ِ طہارت نہیں ہے، اس لیے خضاب لگانے والے کا وضو اور غسل درست ہوگا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ کویت، ۲/۲۸۱- ۲۸۲)