کیا ایک بار دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے؟

ایک بچہ چھ ماہ کا ہے ۔اس کی ماں کسی کام سے باہر گئی تواسے اپنی ایک رشتہ دار خاتون کے پاس چھوڑدیا ۔وہ کافی دیر تک واپس نہیں لوٹی ۔ اس دوران بچہ بھوک کی شدت سے رونے لگا ۔ کچھ انتظار کے بعد رشتہ دار خاتون نے اس بچے کو اپنا دودھ پلادیا۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مجبوری میں ایک بار دودھ پلانے سے اس خاتون کورضاعی ماں کی حیثیت حاصل ہوجائے گی؟
جواب

رشتوں کی حرمت میں ’رضاعت‘(دودھ پلانا) کوبھی شامل کیا گیا ہے۔ چنانچہ جن عورتوں سے کسی شخص کا نکاح کرنا حرام ہےان میں رضاعی ماں اوررضاعی بہن بھی ہیں ۔ سورۂ نساء میں ہے:
وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ (النساء۲۳)
’’تم پر حرام کی گئیں ...........اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہواور تمہاری دودھ شریک بہنیں ‘‘۔
اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ (بخاری۱۴۴۵، مسلم۱۴۴۴)
’’جورشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں ‘‘۔
اس بنا پر بہت سے صحابہ وتابعین اورفقہا میں سے احناف،مالکیہ اورامام احمد (ایک قول کے مطابق)کہتے ہیں کہ کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو اس سے رضاعت ثابت ہوجائے گی ، خواہ اس نے ایک بار پیا ہو یا کئی بار ، اورچاہے جتنی مقدار میں پیا ہو ۔ بس بچے کے پیٹ میں اس عورت کا دودھ پہنچ جانا شرط ہے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عمر دو سال سے کم ہو ۔ اس لیے کہ قرآن میں عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ دو سال تک دودھ پلائیں ۔ (البقرۃ۲۳۳، لقمان۱۴، الاحقاف۱۵)
ایک دوسری رائے یہ ہے کہ پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ یہ رائے صحابۂ کرام میں سے حضرت عائشہؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ اورتابعین میں سے عطاؒ اورطاؤس کی ہے ۔ فقہا ء میں سے شوافع اور امام احمد (دوسرے قول کے مطابق) کی بھی یہی رائے ہے ۔