کیا ’حلالہ ‘ جائز ہے؟

یہاں ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ہاں اگر وہ ایک رات کے لیے اسے کسی دوسرے مرد کے پاس بھیج دے تو دوبارہ وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔اس طریقہ کو ’حلالہ ‘ کہاجاتا ہے۔یہ طریقہ غیرشریفانہ اورانتہائی گھنائونا معلوم ہوتا ہے۔مجھ سے کوئی معقول جواب نہیں بن پڑا۔ براہ کرم اس کا ایسا جواب دیں  جو شرعی نقطۂ نظر سے درست ہواور عقلی طورپر بھی مطمئن کرنے والا ہو۔
جواب

اسلام نے طلاق کا جو طریقہ بتایا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں مردوں اورعورتوں دونوں کے لیے سہولت ہے۔اسلام نے زوجین کے حقوق اورفرائض تفصیل سے بیان کیے ہیں  اور حکم دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن عین ممکن ہے کہ دونوں  میں فکری اورمزاجی ہم آہنگی نہ پائی جائے۔اس صورت میں دونوں  گُھٹ گُھٹ کر جییں ، اس سے بہتر اسلام اسے قراردیتا ہے کہ دونوں الگ ہوجائیں اور دوسرا نکاح کرکے خوش گوار زندگی گزاریں ۔ طلاق ایک فطری ضرورت ہے۔ اس وجہ سے جن مذاہب میں طلاق کا طریقہ نہیں  تھا وہ بھی اسے اپنے عائلی قوانین میں شامل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔
علیٰحدگی کا یہ حق اسلام نے مرد کو بھی دیا ہے اور عورت کو بھی۔عورت کے حق علیٰحدگی کو ’خلع ‘ اورمرد کے حق علیٰحدگی کو ’طلاق‘ کہتے ہیں ۔(خلع کے احکام کی تفصیل کبھی آئندہ بیان ہوگی) اگر مرد عورت کو اپنی ازدواجی زندگی سے علیٰحدہ کرنے کا تہیہ کرلے تو اسلام بہتر قراردیتا ہے کہ مرد صرف ایک طلاق دے ،وہ بھی عورت کی پاکی کی حالت میں ،جب کہ اس نے جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو۔ تین مہینے عورت شوہر کے گھر ہی میں  رہے ، تاکہ دونوں کو اپنے رویوں پرغور کرنے کا خوب موقع مل سکے۔ اگر دونوں پھر میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہیں تو ٹھیک ہے، تین ماہ ختم ہونے سے پہلے شوہررجوع کرلے، نہ رہنا چاہیں توتین ماہ پورے ہوجانے پر دونوں آزاد ہیں ۔آئندہ تھوڑے یا زیادہ عرصہ کے بعد دونوں کا ارادہ پھر میاں  بیوی کی حیثیت سے رہنے کا ہوجائے تو اسلام اس میں  رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ وہ اجازت دیتا ہے کہ دونوں کی مرضی سے نئے مہر کے ساتھ ان کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
اسلام یہ سہولت دومرتبہ دیتا ہے۔قرآن کریم میں  ہے
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۝۰۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ
(البقرۃ۲۲۹)
’’طلاق دوبار ہے۔پھر یاتوسیدھی طرح عورت کو روک لیاجائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘
وہ کہتا ہے کہ طلاق بچوں کا کھیل نہیں کہ مرد جب چاہے طلاق دے کر عورت کو علیٰحدہ کردے، پھر جب چاہے اسے اپنے نکاح میں لے آئے، بلکہ یہ ایک بہت سنجیدہ اور انتہائی غوروخوض کے بعد انجام دیاجانے والا عمل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مرد اگر تیسری مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو اس سے ہمیشہ کے لیے جداہوجائےگا۔یہ قانون اصلاً عورت کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اس مرد کے علاوہ، جو اسے تین مرتبہ طلاق دے چکا ہے، دوسرے جس مرد سے چاہے نکاح کرلے۔ اگر مطلقہ عورت نے تین طلاق مل جانے کے بعد کسی اورمرد سے نکاح کرلیا، بعد میں اس مرد کا انتقال ہوگیا،یامزاجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے اس مرد نے بھی طلاق دے دی تو اسلام اس عورت کو حق دیتا ہے کہ وہ چاہے تواپنا نیا نکاح کرسکتی ہے۔
اس صورت میں  یہ قانون بنایا جاسکتا تھا کہ عورت کسی بھی مرد سے نکاح کرلے،مگر وہ اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں نہیں جاسکتی۔ لیکن یہ اسلام کی رحمت ہے کہ اس نے عورت اور اس کے پہلے شوہر دونوں  کو اس کی اجازت دی کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے ازسر نورشتۂ ازدواج میں  منسلک ہوسکتے ہیں ۔قرآن مجید میں اس حکم کی صراحت موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۝۰ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ (البقرۃ۲۳۰)
’’پھر اگر اس نے (تیسری بار )طلاق دے دی تووہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں  کہ حدودِ الٰہی پرقائم رہیں  گے تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔‘‘
اسلام کی ان تعلیمات پر،جو انسانی فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ، عمل کیا جائے تو عمل کرنے والے بھی راحت محسوس کریں  گے اور دوسرے انسانوں تک بھی اسلام کی تعلیمات صحیح طریقے سے پہنچیں گی۔ لیکن پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمان ان پر عمل نہیں کرتے اورمن مانے طریقے اختیار کرتے ہیں ، چنانچہ خود دشواری کا سامنا کرتے ہیں اور اسلام کی بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔
اسلام نے وقت ضرورت صرف ایک طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔طلاق دے کر رجوع کرنے کا موقع وہ دوبارفراہم کرتا ہے۔لیکن نادان مسلمان غصے میں  آپے سے باہر ہوکر ایک سانس میں تین طلاق دے دیتا ہے،پھر جب غصے کا نشہ ہرن ہوتا ہے تو اسے اس کے علاوہ اور کوئی صور ت نظر نہیں  آتی کہ منصوبہ بند طریقے سے کسی مرد سے اپنی مطلقہ بیوی کا نکاح کرادے، پھر ایک رات کے لیے اس کے پاس بھیج کر اگلی صبح طلاق دلوادے، تاکہ دوبارہ اس کے لیے اس عورت سے نکاح حلال ہوجائے۔
آیت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے شوہر کی وفات یا اس سے طلاق پانے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کی صورت اتفاقیہ پائی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ شاذ ونادر ہی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔اس میں پہلے شوہر کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مطلقہ کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کرادے ،پھر اس سے طلاق دلوانے کی کوشش کرے۔ یہ طریقہ منصوبہ بند طورپر اختیار کرنا اسلامی شریعت کے ساتھ کھلواڑ اورمذاق ہے۔ یہ سراسر حرام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص پرلعنت بھیجی ہے جو اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد اس طریقے سے دوبارہ اس کا نکاح کرائے اور اس شخص پربھی آپ کی لعنت ہے جو اس گھنائو نے عمل میں شریک ہواور بناوٹی نکاح کرکے عورت کو طلاق دے دے، تاکہ سابق شوہر سے اس کا نکاح حلال ہوجائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے
لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ المُحَلِّلَ وَالْمُحَلِّلَ لَہُ۔
(ترمذی۱۱۲۰، نسائی۳۴۱۶)
’’اللہ کے رسول ﷺ نے حلالہ کرنے والے پرلعنت کی ہے اور کروانے والے پر بھی۔‘‘
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالتَّیْسِ الْمُسْتَعَارِ؟(کیا میں تمہیں ’کرایے کے سانڈ‘ کے بارے میں نہ بتائوں ؟) صحابہ نے عرض کیا ہاں ،اے اللہ کے رسول ﷺ ،ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا ھُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ (ابن ماجہ۱۹۳۶) ’’یہ وہ شخص ہے جو نکاح کرنے کے بعد طلاق دے کر پہلے شوہر کے لیے عورت کا نکاح حلال کردے۔ اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے پراور حلالہ کروانے والے پر بھی۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ بند حلالہ اسلامی شریعت میں قابلِ نفرت عمل اور سراسر حرام ہے۔ اس عمل میں شریک ہونے والوں پراللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے۔ اگر مسلم سماج میں  کسی درجے میں اس کا رواج ہے تو اس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں  ۔مسلم سماجی مصلحین کو اس کی روک تھام کرنی چاہیے۔ اسے کسی بھی حال میں برداشت نہیں  کیا جاسکتا۔