کیا حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط کی اجازت ہے؟

حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں چوں کہ بچے میں جان نہیں پڑتی ، اس لیے کیا اس مدت میں حمل کو ضائع کروانا کوئی گناہ نہیں ہے؟اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے۔ بہت سی خواتین اس مدت میں اسقاط کر وانے کو گناہ نہیں سمجھتی ہیں ۔
جواب

پہلی بات تو یہ ہے کہ جنین میں روح پڑنے کی مدت حدیث میں تین ماہ نہیں ، بلکہ ایک سو بیس (۱۲۰) دن یعنی چار ماہ بتائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں اسقاط کروانا کسی بھی وقت جائز نہیں ہے۔ فقہاء نے ایک سو بیس(۱۲۰) دن سے قبل اسقاط کی اجازت دو شرائط کے ساتھ دی ہے: ایک تو یہ کہ کسی ذریعہ سے جنین میں کسی نقص کا پتا چل گیا ہو۔ یہ نقص جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور دماغی بھی۔ یہ معلوم ہو جائے کہ دواران حمل جنین کا نشوو نما صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا ہے۔جب بچہ پیدا ہوگا تو دماغی طور سے بہت کم زور ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کو جاری رکھنے کے نتیجے میں زچہ (حاملہ) کی جان کو خطرہ ہو، یا اس کی صحت کے بہت زیادہ متأثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں بعضـ علماء ایک سو بیس دن کے اندر اسقاط حمل کو جائز قرار دیتے ۔ بعض علماء تو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی مدت میں اسقاط کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔ بہ ہر حال عام حالات میں بغیر کسی حقیقی عذر کے ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کروانا جائز نہیں ہے۔