کیا سجدۂ تلاوت کو مؤخّر کیا جا سکتا ہے؟

درسِ قرآن دیتے ہوئے کبھی آیتِ سجدہ آجاتی ہے۔ کیا اس موقع پر درس روک کر درس دینے والے اور سننے والوں کو فوراً سجدہ کر لینا چاہیے،یا سجدہ کو مؤخّر کیا جا سکتا ہے کہ درس ختم ہونے کے بعد، یا کبھی آئندہ ہر ایک سجدہ کر لے؟ یہ بھی بتائیں کہ اگر دورانِ تلاوت کئی آیات سجدہ پڑھ لی جائیں توکیا ایک ہی سجدہ کافی ہے ، یا ہر ایک آیت سجدہ پر الگ الگ سجدہ کرنا ہوگا؟
جواب

: قرآن مجید میں بعض آیات ایسی ہیں جن میں سجدہ کا ذکر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب ان کی تلاوت کرتے تھے تو سجدہ کرتے تھے اور آپؐ کو دیکھ کر صحابۂ کرام بھی سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں :
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَقرَأُ عَلَینَا السُّوْرَۃَ فِیھا السَّجدَۃُ، فَیَسْجُدُ وَنَسجُدُ (بخاری۱۰۷۵)
’’نبی ﷺ ہمارے سامنے کوئی سورت پڑھتے تھے۔ اس میں سجدہ کی آیت آتی تو آپؐ سجدہ کرتے تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔‘‘
حدیث میں آیت سجدہ پڑھنے پر سجدہ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے
’’جب ابن آدم آیتِ سجدہ پر سجدہ کرتا ہے تو شیطان دور ہٹ جاتا ہے اور ان الفاظ میں گریہ وزاری کرتا ہے: ہائے میری بربادی۔ ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا۔ چنانچہ جنت کا مستحق ٹھہرا ۔اور مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں نے انکار کیا تو جہنم میرا مقدّر بنی۔‘‘ (مسلم ۸۱)
صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ نماز میں یا اس کے باہر، جب بھی قرآن کی تلاوت کرتے اور آیت سجدہ سے گزرتے تو فوراً سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ ابن ابی شیبہؒ نے مشہور تابعی امام شعبیؒ سے روایت کیا ہے
كَانُوْا يَكْرَهُوْنَ إِذَا أَتَوْا عَلٰى السَّجْدَةِ أَنْ يُّجَاوِزُوْهَا حَتّٰى يَسْجُدُوْا
(مصنّف ابن ابی شیبہ ۱؍ ۳۶۶)
’’صحابۂ کرام جب قرآ ن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ پڑھتے تو رک کر سجدہ کرتے تھے۔ اس کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھتے تھے۔‘‘
ان احادیث کی بنا پر فقہا نے آیتِ سجدہ کی تلاوت کرنے پر سجدہ کرنے کی تاکید کی ہے، البتہ ان کے درمیان نوعیتِ مشروعیت میں کچھ اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک سجدۂتلاوت واجب ہے۔ شوافع اور حنابلہ اسے سنت مؤکدہ قرار دیتے ہیں ۔ مالکیہ صرف سنت کہتے ہیں ۔
کوشش کی جانی چاہیے کہ جب بھی آدمی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ سے گزرے، یا کسی موقع پر صرف آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو فوراً سجدہ ریز ہوجائے، البتہ اگر اسے کوئی عذر ہو،یا اس موقع پر سجدہ کرنے میں کچھ زحمت ہو تو اسے مؤخّر کیا جا سکتا ہے اور بعد میں کسی مناسب وقت میں سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے
حضرت زید بن ثابتؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورۂ النجم کی تلاوت کی(اس میں آیت سجدہ ہے)، لیکن آپؐ نے سجدہ نہیں کیا۔ (بخاری۱۰۷۲، مسلم۵۷۷)
حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک مرتبہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے سورۂ النحل کی تلاوت کی۔ آیتِ سجدہ آنے پر منبر سے اترے اور سجدہ کیا۔ مسجد میں موجود دیگر لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ اگلے جمعہ کے خطبے میں انھوں نے پھر سورۂ النحل کی تلاوت کی۔ آیت سجدہ پڑھی، لیکن سجدہ نہیں کیا اور فرمایا آج ہم سجدہ نہیں کریں گے۔ کوئی سجدہ کرلے تو ٹھیک ہے، نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ۔(بخاری۱۰۷۷، مؤطا مالک۵۵۱)
امام مالکؒ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
’’ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا ٹھہرو! اللہ تعالیٰ نے آیتِ سجدہ پر سجدہ کرنا لازم نہیں کیا ہے۔ ہمیں اختیار دیا ہے کہ چاہیں کر لیں ، چاہیں نہ کریں ۔ انھوں نے خود سجدہ کیا نہ صحابہ کو کرنے دیا۔‘‘
امام مالکؒ نے یہ بھی لکھا ہے
’’ امام منبر پر ہو، وہ آیتِ سجدہ کی تلاوت کرے تو منبر سے اتر کر سجدہ کرے، اس پر ہمارے یہاں عمل نہیں ہے۔‘‘
فقہ حنفی میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص آیتِ سجدہ پڑھتے وقت سجدہ نہ کرے، بعد میں کسی وقت کر لے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وَأَدَاؤُھَا لَیْسَ عَلَی الْفَوْرِ، حَتّٰی لَوْ أَدَّا ھَا فِي أَيِّ وَقْتٍ کَانَ یَکُوْنُ مُؤَدِّیًا لَا قَاضِیاً۔
’’ سجدۂ تلاوت فوراً کرنا ضروری نہیں ہے۔ آیتِ سجدہ پڑھنے والا کسی وقت بعد میں سجدہ کرلے تو بھی اسے ادا سمجھا جائے گا۔ اس کی حیثیت قضا کی نہ ہوگی۔‘‘
اگر کوئی شخص دورانِ تلاوت کئی بار سجدہ کی آیتیں پڑھ لے تو احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر ایک مجلس میں ایک ہی آیت سجدہ بار بار پڑھی ہے تو ایک سجدہ کافی ہوگا، لیکن اگر الگ الگ کئی آیات سجدہ پڑھی ہیں تو بہتر ہے کہ ہر مرتبہ سجدہ کرے۔ اگر وہ تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ کر رہا ہو، یا کبھی بعد میں سجدہ کرے تو جتنی آیات سجدہ کی اس نے تلاوت کی ہے اتنے ہی سجدے کرے۔