کیا عورت تراویح میں عورتوں  کی امامت کرسکتی ہے؟

اگر کوئی خاتون حافظۂقرآن ہو تو کیا وہ تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے؟
جواب

کتبِ احادیث سے ثابت ہے کہ امہات المؤمنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی تھیں ۔ وہ صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے اس کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں ۔ (مصنَّف ابن ابی شیبہ۲؍۸۸۔۸۹،روایت نمبر ۴۹۸۹، ۴۹۹۱) یہی فتویٰ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (مصنف عبد الرزاق ۳؍۱۴۰،روایت نمبر۵۰۸۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نماز میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔البتہ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے:
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عورت عورتوں کی جماعت کرسکتی ہے۔ان کی دلیل مذکورہ بالا روایات ہیں ۔
مالکیہ کے نزدیک فرض ہو یا نفل، کسی نماز میں عورت کا عورتوں کی جماعت کی امامت کرنا درست نہیں ہے۔
احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت، خواہ اس کی امامت کوئی عورت ہی کیوں نہ کرے، فرائض اور نوافل دونوں میں مکروہ تحریمی ہے۔ (الدر المختار۱؍۵۶۵) اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں سے آگے رہنا واجب ہے۔ چوں کہ عورت وسط صف میں کھڑی ہوتی ہے، اس لیے ترکِ واجب لازم آتا ہے۔ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر عورتیں جماعت سے نماز پڑھ لیں تو ان کی نماز درست ہوگی۔
حضرت عائشہ ؓسے متعلق روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل ابتدائے اسلام میں تھا۔ (ہدایہ۱؍۵۶) بعد میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی۔ یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر صرف اٹھارہ (۱۸) برس تھی۔ بعد میں وہ تقریباً پچاس (۵۰)برس مزید زندہ رہیں ۔ اس لیے ان کے عمل کو نہ ابتدائے اسلام کا قرار دیا جاسکتا ہے نہ منسوخ کہا جاسکتا ہے۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے عمل کو نقل کرنے والی حضرت ام حسن ؓتابعیہ ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہدِ نبوی کے بعد بھی امہات المؤمنین عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی رہیں ۔
اگر مسجدوں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور وہاں عورتوں کے لیے بھی انتظام ہو تو وہ اس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔ لیکن اگر گھروں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور کوئی خاتون حافظۂ قرآن ہو، یا اسے قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو تو وہ قرآن سنا سکتی ہے اور اس کی امامت میں عورتیں نماز پڑھ سکتی ہیں ۔حافظۂ قرآن نہ ہو تو بھی عام حالات میں ایک عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔