کیا مقیم شخص موسم حج میں عمرہ نہیں کرسکتا؟

مقیم شخص کے لیے حج تمتع‘ کے عنوان سے مذکورہ بالا جواب پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے: ’’سورہ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوں کو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : وَاتَّقُواللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں ’ شدیدالعقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔ اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔ میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِران کرے یا تمتع یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف حج افراد ہی کرسکتا ہے۔‘‘
جواب

:سورۂ بقرہ آیت ۱۹۶ میں کہا گیا ہے :’’ جوشخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھائے وہ حسب مقدور قربانی کرے اور اگرقربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے‘‘۔ اس کے بعد آیت کا ٹکڑا ہے : ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اَہْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ’’یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھربار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ‘‘۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں ۔ بس انہیں قربانی کرنی ہوگی، یا دس روزے رکھنے ہوں گے۔ اس کے ذریعے در اصل عرب جاہلیت کے اس خیال خام کا رد کیا گیا ہے جوسمجھتے تھے کہ عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی سفر میں دونوں کی انجام دہی گناہ ہے ۔ اس سہولت سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے جومکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود میں رہتے ہوں ، اس لیےکہ ان کے لیے عمرہ اورحج دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں ۔
اس سے یہ استنباط کرنا صحیح نہیں ہے کہ میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایام حج (شوال، ذی قعدہ اورذی الحجہ کی ابتدائی ۱۲،۱۳ دن ) میں عمرہ کرنا درست نہیں ۔ وہ بھی ان ایام میں عمرہ کرسکتے ہیں : علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:
اختلف العلماء فیمن اعتمر فی أشہر الحج، ثم رجع الی بلدہ ومنزلہ، ثم حج من عامہ، فقال الجمہور من العلماء لیس بمتمتع ، ولا ہدی علیہ ولا صیام(الجامع لاحکا م القرآن،۳؍۳۰۷)
’’جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے ، پھر اپنے علاقہ اورگھر کی طرف لوٹ جائے ، پھراسی سال حج کرےتو جمہور علما کہتے ہیں کہ وہ متمتع ( حج تمتع کرنے والا) نہیں ہوگا۔ نہ اس پر قربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمے روزے لازم ہوں گے۔‘‘
البتہ یہ بات صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حج تمتع اورحج قران کی سہولت صرف میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے ۔ میقات کے اند ررہنے والے صرف حج افراد کریں گے۔ اگروہ حج تمتع یا حج قران کریں تو وہ بھی دم دیں گے (یعنی قربانی کریں گے) ، لیکن وہ دم تمتع کا نہ ہوگا، بلکہ جنایت کا ہوگا، چنانچہ خودان کے لیے اس کا گوشت کھانا جائز نہ ہوگا،جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک وہ بھی حج تمتع اورحج قران کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اشارہ ھدی (قربانی) اور صیام (روزہ) کی طرف ہے کہ اس کا حکم صرف میقات کے باہر رہنےوالوں کے لیے ہے۔ (تفسیر قرطبی،۳؍۳۱۸)
آیت کے آخر میں ’وَاتَّقُو ا اللہَ وَاَعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘ عمومی بیان ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواحکام دیے گئےہیں ان پر عمل کرو، ورنہ اس کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔