کیا کورونا کے اندیشے سے مسجدوں  کے بجائے گھروں میں  نمازادا کرنا درست ہے؟

لک میں آج کل کورونا وائرس کی خطرناکی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔اس بناپرپورے ملک میں زبردست احتیاطی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ ذرائعِ مواصلات موقوف کردیے گئے ہیں ،دفاتر،تعلیمی ادارے،دوکانیں اورمالس بندکردیے گئے ہیں ،بعض ریاستوں میں مکمل اور بعض ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ مذہبی اداروں اورعبادت گاہوں کو بھی بندکرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔اس صورت حال میں بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا مسجدوں میں باجماعت نمازیں محدود یا موقوف کردینا درست ہے؟کیا مسجدوں  میں جاکر باجماعت نماز اداکرنے کے بجائے گھروں میں ان کی ادائیگی جائز ہوگی؟
جواب

اللہ کے رسول ﷺ سے بعض ایسے اعمال ثابت ہیں جو بہ ظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً آپؐ نے پانی اکثر بیٹھ کر نوش فرمایا ہے اور کبھی کھڑے ہوکر نوش فرمایا ہے۔ پیشاب اکثر بیٹھ کر کیا ہے اورکبھی کھڑے ہوکر کیا ہے ۔محدثین اورفقہانے ایسے متضاد اعمال کو عزیمت اور رخصت کے خانوں میں تقسیم کیا ہے۔وہ بیٹھ کر پانی پینے اور پیشاب کرنے کو اصل اور مطلوب حکم کہتےہیں اور کھڑے ہوکر پانی پینے اورپیشاب کرنے کو رخصت اوربیان جواز کے لیے قرار دیتے ہیں ۔
اس کے بجائے اس کی توجیہ یوں کی جانی چاہیے کہ کبھی ایک عمل مطلوب اورپسندیدہ ہوتا ہے اورکبھی وہ نامطلوب اورناپسندیدہ بن جاتا ہے اوراس کے برعکس عمل مطلوب اور پسندیدہ بن جاتاہے۔اس کا فیصلہ حالات اورموقع ومحل کو دیکھ کر کیاجائے گا۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ایک گھورے(جہاں کوڑاکرکٹ اور گندگی ڈالی جاتی ہے) کے پاس گئے اور وہاں کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔(بخاری۲۲۴،مسلم ۲۷۳)صحیح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل بیان جواز کے لیے نہیں  تھا،بلکہ اس موقع پریہی عمل بہتر اورمطلوب تھا۔اس لیے کہ گھورے پربیٹھ کر پیشاب کرنے سے اس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ پیشاب کی چھینٹیں  خود پیشاب کرنے والے پرآجائیں ۔اس موقع پر بیٹھ کر پیشاب کرنا غیرافضل عمل اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنا افضل عمل تھا، سوآپ نے وہی کیا۔اسی طرح حدیث میں  ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لے گئے، ایک ڈول سے پانی لیا اور اسے کھڑے ہوکر پیا۔(بخاری۵۶۱۷،مسلم ۲۰۲۷)اس سے لوگوں نے یہ حکم نکال لیا کہ زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔حالاں کہ یہ بات درست نہیں ۔عام حالات میں پانی بیٹھ کر پینا چاہیے،لیکن حدیث میں  مذکوروہ موقع بیٹھ کر پینے کا نہیں تھا۔زمزم کے کنویں سے مسلسل پانی نکالنے اوربے شمار حاجیوں کو پلانے کی وجہ سے وہاں بہت کیچڑہوگئی تھی، بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ اس وقت بیٹھ کر پینے سے کپڑے گندے ہوجانا عین متوقع تھا ۔اس لیے اس موقع پربیٹھ کر پینا غیرمطلوب عمل اور کھڑے ہوکر پینا مطلو ب عمل تھا،سوآپ نے وہی کیا۔
اس اسوۂ نبوی سے ہمیں زندگی کا ایک قیمتی اصول حاصل ہوتاہے۔وہ یہ کہ موقع ومحل سے ایک افضل عمل غیرافضل اورایک غیرافضل عمل افضل بن سکتاہے۔
یقیناً عام حالات میں مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز اداکرنا پسندیدہ، مطلوب اور افضل عمل اور گھروں میں فرض نماز اداکرنا ناپسندیدہ اورغیرافضل عمل ہے،لیکن جب کورونامرض وبائی صورت اختیارکرلے اور اس بات کا قوی امکان پیدا ہوجائے کہ مسجدوں میں باجماعت نماز اداکرنے سے بہت سے نمازی اس موذی اورمہلک مرض کا شکار ہوجائیں گے تو اس وقت گھروں میں  نماز پڑھنا مسجد میں  نمازپڑھنے سے افضل ہوجائے گااوراگرضرورت متقاضی ہوتو وقتی طورپر کچھ عرصہ کے لیے مسجدوں میں  باجماعت نمازموقوف کردینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا۔