گدھا- رسول اللہ ﷺکی سواری؟

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اور آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘ (ص۳۰۷:) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے ۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپؐ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مجھے سنہ۲۰۱۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا ۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا ۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا ۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا ‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے ۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے ۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں ۔
جواب

سطورِ بالا میں جواشکال ظاہر کیا گیا ہے وہ نقلی اورعقلی دونوں اعتبار سے غلط ہے ۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے جوحدیث مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں :
کُنْتُ رِدْفَ رَسُوْلِ اللہِ صَلیّٰ اللہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی حِمَارٍ
(مسلم ۴۸:)
’’میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عربی زبان میں ’حمار ‘ اس جانور کوکہا جاتا ہے جسے ہمارے یہاں ’ گدھا ‘ کہا جاتا ہے ۔
کسی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ کس زمانے اورکس جگہ سے متعلق ہے ؟ زمان ومکان کی تبدیلی سے معانی میں بھی فرق آجاتا ہے ۔ مثا ل کے طورپر ہمارے یہاں ’اُلّو ‘ کونحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے ، لیکن یورپی ممالک میں اسے ’عقل ودانش ‘ کی نشانی سمجھا گیا ہے ۔ اسی طرح گدھا ہمارے یہاں بے وقوفی کی علامت ہے، جب کہ عرب میں اسے صبر واستقامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے : فلان أصبر من حمار فی الحروب (فلاں شخص جنگوں میں گدھے سے زیادہ ثابت قدمی کا مظاہر ہ کرتا ہے ) خلافتِ بنی امیہ کے آخری حکم راں کا نام مروان بن محمدتھا ۔ اس کے زمانے میں بہت زیادہ بغاوتیں ہوئیں ، جن کا اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا ، اسی لیے اس کا لقب ’الحمار ‘ ہوگیا تھا اوراسے ’مروان الحمار ‘ کہا جاتا تھا۔
علامہ ابن القیمؒ نے اپنی تصنیف ’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ‘ میں ان جانوروں کی تفصیل بیان کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے ۔ ان میں فرس (گھوڑا ) ناقۃ (اونٹنی ) جمل (اونٹ) بغلۃ (خچر) شاۃ (بکری) اورحمار(گدھا) کا ذکر ہے ۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، ابن القیم الجوزیۃ ، تحقیق : شعیب الارنؤؤط ،عبدالقادر الارنؤوط، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۱۹۹۸ ء۱:؍۱۲۸۔۱۲۹) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں گدھے کوبھی سواری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ مختلف روایتوں میں حضرت سعدبن معاذؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاذ بن جبلؓ کے گدھے پر سوار ہونے کا ذکر ہے ۔ بعضـ روایات میں ایک گدھے پر دو افراد کے سوار ہونے کی صراحت ہے ۔ مثلاً ایک روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ بھی ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار ہونےکی صراحت کرتے ہیں ۔ ( ابوداؤد: ۴۰۰۲)
سائل موصوف کوان کے سفر حج اور سعودی عرب میں ڈیڑھ ماہ قیام کے دوران کہیں گدھا نظر نہیں آیا ، اس کو انہوں نے اس چیز کی دلیل بنا لیا کہ سعودی عرب میں گدھا پایا ہی نہیں جاتا ۔ اگر بکریوں ، دنبوں اوراونٹوں کی قربانی نہ ہوتی تویہ جانوربھی شہری علاقوں میں نظر نہ آتے ۔ پھرکیا یہ چیز دلیل بن سکتی ہے کہ یہ جانور سعودی عرب میں نہیں پائے جاتے۔
کتاب میں لفظ ’ گدھا ‘ کا استعمال انگریزی الفاظ ASSیا DONKEYکا ترجمہ کرکے نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ عربی لفظ ’حمار ‘ کا ترجمہ ہے۔ عربی زبان میں خچر کے لیے ’ بغلۃ ‘ اور گدھے کے لیے ’حمار ‘ کا لفظ آتاہے ۔عہدِ نبوی میں یہ دونوں جانور پائے جاتے تھے اوردونوں سواری کے لیے مستعمل تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر پر بھی سواری کی ہے اور گدھے پر بھی ۔ اس سے آپؐ کی بے ادبی کا پہلو نہیں نکلتا ۔ کوئی چیز ہمارے عرف میں ناپسندیدہ ہو توضرور ی نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی اسے ناپسند یدہ سمجھا جاتا ہو۔