جواب
صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کی مشروعیت ہجرت مدینہ کے بعد ہوئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : ’’مسلمان (ہجرت کے بعد) مدینہ پہنچے تو وہاں وہ نمازوں کے اوقات کا اندازہ لگا کر اکٹھا ہوتے تھے، اذان نہیں دی جاتی تھی۔ انھوں نے باہم مشورہ کیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ناقوس بجایا جائے، جس طرح نصاریٰ کرتے ہیں ۔ کسی نے کہا: شنکھ بجایا جائے، جس طرح یہود کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب بدء الاذان، حدیث:۶۰۴) کسی نے مشورہ دیا کہ نماز کے وقت جھنڈا بلند کیا جائے، اسے دیکھ کر لوگوں کو علم ہوجائے گا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب بدء الاذان، حدیث: ۴۹۸) آں حضرت ﷺ کو کوئی مشورہ پسند نہیں آیا۔ (سنن ابی داؤد، حوالہ سابق، سنن ابن ماجہ، ابواب الاذان، باب بدء الاذان، حدیث: ۷۰۶) صحابہ اسی غور و فکر میں تھے کہ حضرت عبد اللہ بن زیدؓ نے خواب میں پوری اذان سنی۔ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر انھوں نے اپنا خواب بیان کیا۔ آں حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ وہ حضرت بلالؓ کو اذان سکھا دیں اور حضرت بلالؓ اذان دیں (کیوں کہ حضرت بلالؓ کی آواز بلند تھی)۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے آکر اطلاع دی کہ اذان کے یہی کلمات انھیں بھی خواب میں سکھائے گئے ہیں ۔ آں حضرت ﷺ نے ان خوابوں کی تصدیق کی اور انھیں ’سچا خواب‘ قرار دیا۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کی مشروعیت ہجرت سے قبل مکہ ہی میں ہوگئی تھی۔ سفر معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺکو اذان سکھا دی گئی تھی۔ حضرت جبرئیل ؑ نے اذان دی تھی اور آں حضرت ﷺنے امامت کی تھی۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :
والحق انہ لا یصح شیء من ھذہ الأحادیث (ان احادیث میں سے کوئی صحیح نہیں ہے)۔ فتح الباری ۲/۷۹
علامہ ابن منذرؒ نے قطعیت سے کہا ہے کہ مکہ میں نماز کی فرضیت کے وقت سے مدینہ ہجرت کرنے اور وہاں اذان کے بارے میں مشورہ کرنے تک آں حضرت ﷺ بغیر اذان کے نماز ادا کرتے تھے۔ (فتح الباری، حوالہ سابق)