جواب
رسول اللہ ﷺ نے خطبۂ جمعہ ہمیشہ عربی زبان میں دیا ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام، جو مختلف علاقوں میں ، حتیٰ کہ بلادِ عجم میں پھیل گئے تھے، انھوں نے بھی خطبۂ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں دیا۔ اس وجہ سے جمہور فقہا کہتے ہیں کہ خطبۂ جمعہ عربی زبان میں دینا مسنون ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک غیر عربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے نزدیک جو شخص عربی زبان پر قادر ہو اسے عربی میں خطبہ دینا چاہیے۔ جو قادر نہ ہو اسے غیرعربی میں بھی خطبہ دینے کی اجازت ہے۔ عموماً فقہاے احناف کا فتویٰ اور عمل صاحبین کے مسلک پر ہے۔ لیکن بعض فقہا نے غیر عربی زبان میں خطبہ دینے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً علامہ عبد الحی فرنگی محلی نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (۱) مولانا محمدعلی مونگیریؒ بانی دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ’القول المحکم فی خطابۃ العجم‘ ہے۔
موجودہ دور میں اس چیزکی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ خطبۂ جمعہ کو عوام کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس بنا پر بعض علما کہتے ہیں کہ جمعے کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیے جائیں ، البتہ خطبے سے قبل عوام کی زبان میں ان کے سامنے تقریر کی جائے، جس میں انھیں دین کی باتیں بتائی جائیں ۔ اس طریقے کو اختیار کیاجاسکتا ہے، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس طرح عملاً جمعے کے تین خطبے ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے میرے خیال میں موجودہ دور کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو اختیار کرکے خطبۂ اولیٰ کو اردو میں دینا چاہیے۔
اس موقعے پر اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پانچویں سمینار منعقدہ ۸-۱۶؍ ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ مکہ مکرمہ میں منظور شدہ ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے: ’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیر عرب علاقوں میں جمعہ و عیدین کے خطبے کے صحیح ہونے کے لیے عربی زبان کی شرط نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبے کے ابتدائی کلمات اور قرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں ، تاکہ غیر عرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عاد ت ڈالیں اور عربی و قرآن سیکھنا ان کے لیے آسان ہو۔ پھر خطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت و تذکیر کرے۔‘‘ (۱)