اسماء حسنیٰ

ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ کے ننانوے نام ہیں ۔ وہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتاہے۔‘‘ اس کی روشنی میں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں : (۱) کیا رسول اللہ ﷺ نے ان ناموں کی تعیین کی ہے؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہیں ؟ (۲) ترمذی، ابن ماجہ اور عسقلانی نے جو نام بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے کس کی فہرست مستند ہے؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شخص قرآن سے اللہ کے ننانوے سے زائد نام نکال سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد نام ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔
جواب

قرآن کریم میں ہے:
وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص (الاعراف: ۱۸۰)
’’اللہ کے اچھے نام ہیں ۔ اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو۔‘‘
ایک حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَّ تِسْعُوْنَ اِسْمًا، مَنْ حَفِظَھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَ اِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ ۔(۱)
’’اللہ کے ننانوے نام ہیں ۔ جو شخص ان کو یاد کرلے گا وہ جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ’’مَنْ اَحْصَاھَا‘‘ (جو ان کو شمار کرلے گا۔۔۔) کے الفاظ ہیں ۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متعین طور پر اللہ تعالیٰ کے صرف ننانوے نام ہیں ۔ اس لیے کہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بے شمار نام ہیں ، ان کا احاطہ کرنا کسی شخص کے بس میں نہیں ہے۔ مسند احمد میں ایک دعا سکھائی گئی ہے، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:
اَسْأَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ، سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَوْ اِسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ ۔(۲)
’’اے اللہ! میں تیرے سامنے دست ِ سوال دراز کرتا ہوں ، تیرے ہر اس نام کے واسطے سے، جس سے تونے خود کو موسوم کیا ہے، یا اسے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے، یا اسے اپنی کسی مخلوق کو سکھایا ہے، یا تونے اسے اپنے پاس محفوظ رکھا ہے اور کسی کو نہیں بتایا ہے۔۔۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری دعا کا ایک ٹکڑا یہ ہے:
لاَ اُحْصِیْ ثَنَائً ا عَلَیْکَ، اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ۔(۱)
’’اے اللہ! تیری ثنا کا شمار کرنا میرے بس میں نہیں ۔ تو ویسا ہی ہے جیسا تونے خود اپنی ثنا کی ہے۔‘‘
اللہ کی کامل ثنا اسی وقت کی جاسکتی ہے، جب اس کے تمام اسماء وصفات کا احاطہ ممکن ہو۔ اور اس پر کوئی انسان قادر نہیں ہے۔
بخاری و مسلم کی مذکورہ بالا حدیث (جس میں اللہ کے ننانوے نام قرار دیے گئے ہیں ) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو شخص اللہ کے ننانوے ناموں کو یاد رکھے گا اسے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں :
’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حصر نہیں ہے اور اس میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے صرف ننانوے نام ہیں ۔ بلکہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے ننانوے ناموں کا احاطہ کرلے گا وہ جنت میں جائے گا۔ دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن العربی مالکیؒ نے بعض اہل علم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ کے ایک ہزار نام ہیں ۔ ابن العربیؒ فرماتے ہیں : یہ تعداد بھی کم ہے۔‘‘ (۲)
یہی بات شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے بھی اپنی متعدد تصانیف میں ارشاد فرمائی ہے۔ (۳)
حافظ ابن حجرؒ، علامہ خطابیؒ، امام قرطبیؒ، حافظ ابن کثیرؒ اور امام فخر الدین رازیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات غیر محصور ہیں ۔ ننانوے کا ذکر محض کثرت ِ تعداد بیان کرنے کے لیے ہے اور طاق عدد رمز ِ توحید ہے۔ یعنی رب العزت واحد ہے، حتی کہ اس کے اسماء سے بھی اس کی وحدت کا ہی اشارہ ملنا چاہیے، جوڑے کا نہیں ۔ (۱)
اسماء حسنیٰ سے متعلق بعض روایات میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام بھی گنائے گئے ہیں ۔ ان میں سے تین روایات قابل ذکر ہیں ۔ ایک امام حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین (۱؍۷۱) میں ہے، دوسری جامع ترمذی (۳۵۰۷) میں اور تیسری سنن ابن ماجہ (۳۸۶۱) میں ۔ لیکن یہ تمام روایات ضعیف ہیں ۔ محدثین نے ان کے ضعف کی صراحت کی ہے۔ (۲)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:
’’علم حدیث سے واقف اصحاب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ دونوں روایتیں (یعنی ترمذی اور ابن ماجہ کی) نبی ﷺ کا کلام نہیں ہیں ، بلکہ اصلاً یہ بعض علمائے سلف کے کلام پر مشتمل ہیں ۔ اس لیے دونوں روایتوں میں جو اسمائے الٰہی مذکور ہیں ، ان میں فرق پایا جاتا ہے۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ نبی ﷺ کا کلام نہیں ہے، بلکہ حدیث نبوی میں یہ نام داخل کردیے گئے ہیں ، اسی وجہ سے بعض دیگر حضرات مثلاً سفیان بن عیینہؒ اور امام احمدؒ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے کچھ دیگر نام جمع کیے ہیں اور ان کا قرآن سے استخراج کیا ہے۔‘‘ (۳)
ترمذی، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم کی روایات میں اسماء حسنیٰ کی جو فہرستیں ہیں ان میں باہم فرق ہے۔ ان سب کو جمع کرنے سے اسماء حسنیٰ کی تعداد ایک سو بیالیس (۱۴۲) تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قرآن کریم سے کچھ اور بھی اسماء الٰہی کا استخراج کیا جاسکتاہے۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حدیث صحیح میں اسماء حسنیٰ کو یاد کرنے یا ان کا شمار کرنے پر استحقاق جنت کی جو بشارت دی گئی ہے، اس کا مطلب ان کو محض رَٹ لینا اور ان کا ورد کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ان کے معانی کو سمجھنا، ان میں تدبر کرنا اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے۔ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’بدائع الفوائد‘ میں اس کے تین درجے قرار دیے ہیں ۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ ان اسماء الٰہی کو یاد کیا جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کے معانی کو سمجھا جائے اور ان کا استحضار ہو اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے، اس کی عبادت کی جائے اور اس کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے۔‘‘ (۱)