میرے محلے میں ایک مسجد ہے، جہاں تقریباً تین سو نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کے احاطے میں ایک بڑا ہال ہے، جس میں اکثر اجتماعات ہوتے ہیں۔ ان میں مرد اور خواتین دونوں شریک ہوتے ہیں۔
کیا یہ جائز ہے کہ اس ہال میں ایک اسکرین لگادی جائے اور اسے سی سی ٹی وی کیمرے سے جوڑ دیا جائے تاکہ مسجد میں ہونے والی تقاریر اور خطبات جمعہ سے خواتین بھی استفادہ کر سکیں۔
بعض حضرات اس سے منع کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں ہے کہ ایک نابینا صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت وہاں بعض امہات المومنین موجود تھیں۔ آپؐ نے انھیں پردہ کرنے کو کہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو نابینا ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایالیکن تم تو دیکھ رہی ہو؟
جواب
شرعی پردہ کے حدود کے ساتھ مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے استفادہ جائز ہے۔ عہد نبوی میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلسوں میں، جہاں صحابۂ کرام موجود ہوتے تھے، بعض صحابیات بھی آتی تھیں اور سوالات کرتی تھیں، جن کے آپؐ جواب دیتے تھے۔وہ آپؐ کے ارشادات سنتی تھیں اور صحابۂ کرام کی باتیں بھی۔
جتنی سختی کسی مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنے کے معاملے میں ہے اتنی کسی عورت کے اجنبی مرد کو دیکھنے کے معاملے میں نہیں ہے۔ عہد نبوی کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن حبشیوں نے مسجد نبوی کے صحن میں کرتب دکھائے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کورسول اللہ ﷺ نے اپنی اوٹ سے وہ پورا کھیل دکھایا۔ حضرت عائشہ دیر تک دیکھتی رہیں۔یہاں تک کہ جب وہ خود تھک گئیں تب ہی پلٹیں۔ (بخاری۴۵۴، ۲۹۰۷، مسلم۸۹۲)
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے
’’اس حدیث سے جائز کھیل دیکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔اس سے رسول اللہﷺ کے حسن اخلاق کابھی علم ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا لطف و کرم کا معاملہ گرماتے تھے۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے۔‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری)
جس حدیث کا اوپر سوال میںذکر کیا گیا ہے وہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر میں اور میمونہ ؓ (دوسری ام المومنین) رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے۔وہاں حضرت ابن ام مکتومؓ آگئے۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب حجاب کا حکم آچکا تھا۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’ان سے پردہ کرو۔‘‘ ہم نے عرض کیا’’ یہ تو نابینا ہیں۔ نہ ہمیں دیکھ رہے ہیں نہ پہچانتے ہیں۔‘‘ تب آپؐنے فرمایا ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟‘‘ یہ حدیث اگرچہ ابو داؤد (۴۱۱۲)،ترمذی (۲۷۷۸) اور مسند احمد (۲۲۶۵۳۷) میں مروی ہے، لیکن سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، اس لیے اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت ابن ام مکتوم ؓ کا ایک دوسرا واقعہ مشہور ہے۔حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے شوہر ابو عمرو بن حفص مخزومیؓ نے طلاق دے دی۔اللہ کے رسولﷺ نے پہلے تو انھیں حکم دیا کہ وہ ام شریکؓ کے گھر عدت گزاریں، لیکن بعد میں جگہ تبدیل کردی،فرمایا ام شریک کے گھر بہت سے مرد آتے رہتے ہیں، اس لیے فاطمہ بنت قیس ابن ام مکتوم کے گھر قیام کریں۔ وہ نابینا ہیں۔وہاں وہ آزادی سے رہ سکتی ہیں۔ ( مسلم۱۴۸۰، موطا مالک۱۶۹۷)
اس تفصیل سے واضح ہواکہ اگر مسجد سے متصل ہال میں ایک اسکرین لگادی جائے اور اسے سی سی ٹی وی کیمرے سے جوڑ دیا جائے، تاکہ مسجد میں ہونے والی تقاریر اور خطباتِ جمعہ سے خواتین بھی استفادہ کر سکیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔