اعتکاف کے آداب

میں ایک مدرسہ میں کام کرتا ہوں ، مدرسہ کے ناظم ہر سال رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ مدرسہ کے دیگر ذمہ دار اور اساتذہ بھی اعتکاف کرتے ہیں ۔ مدرسہ میں نئے سال کی تعلیم شوال سے شروع ہوتی ہے، اس لیے داخلہ فارم رمضان میں آتے ہیں ، انھیں چیک کرکے جواب دینا ہوتا ہے۔ یہ سارا دفتری کام ناظم صاحب دوران اعتکاف انجام دیتے ہیں ۔ داخلہ چاہنے والے جو لوگ آتے ہیں ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک اعتبار سے پورا دفتر نظامت رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ناظم صاحب اعتکاف میں موبائل بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ اس طرح وہ باہر کے لوگوں سے برابر رابطہ میں رہتے ہیں ۔ یہ چیزیں مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتی ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا دوران ِ اعتکاف ان کاموں کی انجام دہی کی اجازت ہے؟
جواب

اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت اور عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا تذکرہ تحسین کے انداز میں کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ایک مرتبہ رمضان کے ابتدائی دس دنوں میں اور ایک مرتبہ وسطی دس دنوں میں اعتکاف کیا، مگر پھر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا معمول بنا لیا۔ ایک مرتبہ بعض وجوہ سے آپ نے اعتکاف نہیں کیا تو شوال کے ابتدائی دس دنوں میں اس کا اہتمام کیا۔
اعتکاف کی روح یہ ہے کہ آدمی کچھ عرصہ نفسانی خواہشات اور دنیاوی کاروبار سے الگ ہوکر کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر میں لگا رہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے۔
’’مسجد میں اعتکاف دل جمعی، صفائی قلب، اللہ کی عبادت و اطاعت میں انہماک، ملائکہ سے تشبہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ ہے۔‘‘ (۱)
الموسوعۃ الفقہیۃ کویت میں اعتکاف کے بارے میں لکھا گیا ہے:
’’اعتکاف کرنے والا اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کو اس کی عبادت کے لیے وقف کردیتا ہے اور ان دنیاوی مشاغل سے خود کو الگ کرلیتا ہے جو تقرب الٰہی میں مانع بنتے ہیں ۔ وہ اپنے تمام اوقات کو نمازوں کی ادائی یا ان کے انتظار میں صرف کرتا ہے۔ اعتکاف کی مشروعیت کا مقصد اصلی یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والے کی تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا ہوں اور اس کی ذات ملائکہ کے مشابہ ہوجائے، جو اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور وہ تمام کام انجام دیتے ہیں جن کا انھیں حکم دیا جاتا ہے اور دن رات بغیر کسی توقف کے اس کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں ۔‘‘ (۲)
حافظ ابن قیم الجوزیہؒ نے اپنی کتاب زاد المعاد میں اعتکاف کے سلسلے میں بہت اچھی بحث کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’اعتکاف کا مقصود اور اس کی روح یہ ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کی جانب پورے طور سے متوجہ ہو، اس کی طرف اسے مکمل انہماک اور دل جمعی حاصل ہو، مخلوق سے وہ بالکل کٹ جائے اور صرف اللہ سبحانہ سے اس کا رابطہ ہو اور یہ حال ہوجائے کہ تمام افکار و ترددّات اور ہموم و وساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے، ہر فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے، اس کی زبان ہر وقت اس کے ذکر سے تر رہے، ہر وقت وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے فکر مند رہے، اس میں مخلوق سے انس کے بجائے اللہ سے انس پیدا ہو، تاکہ قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہوگا یہ انس اس کا زاد سفر بنے۔ یہ ہے اس اعتکاف کا مقصد جو رمضان کے آخری عشرے کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘ (۱)
اس کے بعد علامہ ابن قیمؒ نے اعتکاف کے معمولات نبوی کا تذکرہ کرکے آخر میں لکھا ہے:
’’اس کے برخلاف جاہل لوگ جائے اعتکاف کو ملنے جلنے کی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ اعتکاف کی حالت میں لوگ ان سے ملنے کے لیے کثرت سے آتے ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں ۔ یہ اعتکاف کا ایک انداز ہے، جب کہ نبی ﷺ کے اعتکاف کا دوسرا انداز تھا۔‘‘ (۲)
فقہاء نے اعتکاف کے آداب پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے مطابق:
’’اعتکاف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ کثرت سے نوافل پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے، سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور دوسرے اذکار کا ورد کرے، توبہ و استغفار کرے، نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجے۔ دعا کرے اور دیگر ایسے اعمال انجام دے جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور بندہ خالق سے قریب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وہ دوران اعتکاف حصول علم کی تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے لیے وہ تفسیر، حدیث، انبیاء و صالحین کی سیرت، فقہ اور دیگر دینی موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرے۔‘‘ (۳)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ دوران ِ اعتکاف دفتری مشاغل اختیار کرنا اعتکاف کی روح کے خلاف ہے۔ جو لوگ کسی مدرسہ، تنظیم یا ادارہ کے ذمہ دار ہوں وہ اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو انھیں اپنی ذمہ داری کسی دوسرے کو منتقل کردینی چاہیے۔ اسی طرح دوران ِ اعتکاف موبائل فون کے استعمال سے بھی حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے کہ اس سے ذکر و عبادت میں خلل کا قوی امکان رہتا ہے۔