امامت کے لیے کم ازکم عمر

:ایک لڑکا ہے،جس کی عمر تقریباً اٹھارہ(۱۸) سال ہے۔ ابھی تک اس کی ڈاڑھی نہیں  نکلی ہے۔اس نے کبھی ڈاڑھی مونڈھی بھی نہیں  ہے۔وہ حافظِ قرآن ہے۔اس کو کبھی کبھی مسجد کے امام صاحب نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھادیتے ہیں ۔اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی ڈاڑھی نہیں  ہے،وہ امامت نہیں  کرسکتا۔ گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔کیا یہ لڑکا امامت کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب

اسلامی احکام کے مکلف صرف بالغ لوگ ہیں ۔نماز بالغ مردوں پرفرض ہے، بچوں  پر نہیں ۔اس بنا پر فقہا کہتے ہیں کہ نابالغ بچہ فرض نماز کی امامت نہیں کرسکتا۔
فقہا نے بلوغت کی دوعلامات بیان کی ہیں  ایک احتلام ، دوسری انبات، یعنی زیر ناف بال نکل آنا۔فقہا نے عمر کے لحاظ سے بھی بلوغت کی حدمقرر کی ہے۔شوافع ،حنابلہ اور احناف میں سے قاضی ابویوسف اورامام محمد کے نزدیک پندرہ(۱۵) سال کے لڑکے کو بالغ مانا جائے گا۔دیگر دلائل کے ساتھ وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ غزوۂ احد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی عمرچودہ (۱۴)برس تھی تو انھیں مسلم فوج میں  شامل نہیں کیاگیا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد غزوۂ خندق کے موقع پر، جب ان کی عمر پندرہ(۱۵) برس تھی، تب انھیں  جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ امام ابوحنیفہؒ نے لڑکے کے لیے بلوغت کی عمراٹھارہ (۱۸) برس قراردی ہے۔
بہ ہر صورت اٹھارہ(۱۸) برس کے لڑکے کو بالغ سمجھا جائے گا۔وہ امامت کرسکتا ہے۔ امامت کے لیے لڑکے کے چہرہ پر ڈاڑھی نکل آنا ضروری نہیں ہے۔