امام کا محراب ِ مسجد میں کھڑا ہونا

ہمارے محلے کی مسجد میں اس بات پر تنازعہ ہوگیا کہ امام صاحب دوران ِ امامت محراب ِ مسجد میں کھڑے ہوں یا اس سے باہر؟ بعض لوگوں نے کہا کہ محراب میں امام کا کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس لیے کہ اس میں اہل کتاب کی مشابہت ہے، جب کہ بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں ، اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب

آج کل مسجدوں میں جس طرح محراب بنائے جاتے ہیں ، اس کا رواج صدر ِ اول میں نہیں تھا۔ چنانچہ مسجد نبوی میں بھی رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں محراب نہیں تھا۔ سب سے پہلے اس کی تعمیر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ۹۱ھ میں کی، جب وہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے۔
محراب ِ مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ شوافع، مالکیہ (مشہور قول کے مطابق) اور بعض حنفیہ کا قول ہے کہ فرض نماز کے لیے امام کا محراب میں کھڑا ہونا جائز ہے۔ حنابلہ اور بعض احناف اسے مکروہ قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ بعض فقہائے احناف کہتے ہیں کہ امام کو محراب ہی میں کھڑا ہونا چاہیے۔ محراب کے علاوہ اس کا اور کہیں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ امام احمدؒ سے ایک قول یہ مروی ہے کہ امام کا محراب ہی میں کھڑا ہونا مستحب ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمدؒ نے الجامع الصغیر میں امام کے محراب میں کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے۔ انھوں نے اس مسئلے کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی ہے، اسی لیے بعد کے فقہاء میں اس کی تفصیلات میں اختلاف ہوگیا ہے۔
جو حضرات اسے مکروہ قرار دیتے ہیں وہ اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں ۔ مثلاً بعض حضرات کہتے ہیں کہ محراب میں رہنے سے امام مقتدیوں سے الگ تھلگ سا ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کتاب کے عمل سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں مسجد میں دائیں اور بائیں جانب رہنے والے مقتدی امام کے حال سے واقف نہیں رہ پاتے۔ گویا اگر امام محراب میں رہتے ہوئے مقتدیوں سے الگ تھلگ نہ معلوم دے اور مقتدی اس کے حال سے واقف رہیں تو محراب میں کھڑے ہوکر امامت کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔(۱)