انبیاء اور ان کی امتوں سے میثاقِ الٰہی

سورۂ آل عمران، آیت: ۸۱ میں آنے والے رسول سے تمام انبیاء پر، جو ایمان لانے اور مدد کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ کیا یہ عہد حضرت محمد ﷺ کے لیے تھا؟
جواب

سورۂ آل عمران کی آیت: ۸۱ درج ذیل ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ ٰ اتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗط قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط قَالُوْآ اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَo (آل عمران:۸۱)
’’یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ ’’آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے، جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔‘‘ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا ’’کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا ’’ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ،‘‘ اللہ نے فرمایا ’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں ۔‘‘ اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے، جس عہد (میثاق) کا تذکرہ ہے وہ کس سے لیا گیا تھا؟ اس سلسلے میں مفسرین نے دو توجیہیں کی ہیں ۔ ایک توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ جس دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تمھیں مبعوث کیا گیا ہے، وہی دین میری طرف سے کوئی دوسرا رسول لے کر جائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ یہ عہد اگرچہ بہ ظاہر پیغمبروں سے لیا گیا، لیکن اصلاً اس کے مخاطب ان کے پیرو کار تھے۔ اس توجیہ کی صورت میں یہ عہد حضرت محمدﷺ کے لیے خاص نہیں ، بلکہ ہر آنے والے پیغمبر کے لیے ہوگا۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ یہ عہد پیغمبروں سے نہیں ، بلکہ پیغمبروں کے بارے میں اہل کتاب (بنی اسرائیل) سے لیا گیا تھا۔ ’میثاق النبیین‘ میں میثاق کی اضافت فاعل کی طرف نہیں ، بلکہ مفعول کی طرف ہے۔ اہل کتاب سے لیے گئے میثاق الٰہی کا تذکرہ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی ہے۔ (ملاحظہ کیجیے البقرۃ: ۶۳، ۸۳- ۸۴، ۹۳، آل عمران:۱۸۷، النساء:۱۵۴، المائدۃ: ۱۲، الاعراف:۱۶۹) اس توجیہ کی صورت میں آیت میں وارد لفظ ’رسول‘ اگرچہ نکرہ ہے، لیکن اس سے مراد اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ ہیں ۔ اہل کتاب سے آپﷺ پر ایمان لانے اور آپؐ کی تائید و نصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا، مگر انھوں نے اس کی پاس داری نہیں کی۔ قدیم مفسرین میں سے طبریؒ (جامع البیان عن تاویل آی القرآن، ۶/۵۵۰-۵۶۱) اور رازیؒ (مفاتیح الغیب، ۲/۵۰۶-۵۱۰) نے دونوں توجیہیں درج کی ہیں اور سلف میں ان کے قائلین کے نام اور دلائل تفصیل سے ذکر کیے ہیں ۔ متاخرین میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ (تفہیم القرآن، ۱/۲۶۹) نے پہلی توجیہ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ (تدبر قرآن، ۱/۷۳۵-۷۳۷) نے دوسری توجیہ کو قبول کیا ہے۔ آیت ِزیر بحث سے پہلے کی آیتوں میں اہل کتاب سے بہ راہ راست خطاب کیا گیا ہے۔ اس لیے دوسری توجیہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ اس موضوع پر راقم سطور نے اپنی کتاب ’قرآن، اہل کتاب اور مسلمان‘ (شائع شدہ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ) باب اول، فصل دوم بہ عنوان ’میثاق بنی اسرائیل‘ میں بحث کی ہے۔ تفصیل کے لیے اس سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔