میرے ایک دوست کا مسئلہ ہے۔ براہ کرم اس سلسلے میں شریعت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔ ان کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ بڑا لڑکا اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گیا۔ وہاں اس نے والدین کی اطلاع اور اجازت کے بغیر ایک امریکن لڑکی سے اس کے مسلمان ہوئے بغیر شادی کرلی۔
میرے دوست اپنے اس لڑکے سے بہت ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بے دین ہوگیا ہے، اس کا میری وراثت میں کوئی حصہ نہیں۔ کیا ان کی بات صحیح ہے؟ کیا یہ لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنے کی وجہ سے باپ کی وراثت سے محروم ہوسکتا ہے؟
براہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب
اسلامی شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ کسی مسلمان مرد کا کسی غیر مسلم عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت آئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۰ۚ (البقرة۲۲۱)
’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ ‘‘
البتہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کے معاملے میں شریعت میں کچھ رخصت دی گئی ہے۔ کسی مسلمان خاتون کا تو کسی یہودی یا عیسائی مردسے نکاح جائزنہیں، لیکن مسلمان مرد کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۰ۭ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۰۠وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ۰ۡوَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ (المائدة ۵)
’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں، یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ ‘‘
بعض علما کہتے ہیں کہ یہ اجازت صرف عہد نبوی کے اہل کتاب کے لیے تھی۔ اب ان کے عقائد اوراعمال میں بہت زیادہ فساد آگیا ہے، اس لیے اب کسی مسلمان مرد کے لیے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح جائز نہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔ عہد نبوی کے یہود و نصاریٰ میں بھی بہت زیادہ بگاڑ تھا۔ ان کے مشرکانہ عقائد کی قرآن مجید میں صراحت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ اجازت اب بھی باقی ہے۔
سوال میں جس نوجوان کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس نے اگر کسی یہودی یا عیسائی لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس نے کوئی حرام کام نہیں کیا۔ لیکن اگر وہ لڑکی ملحد یا مشرک ہے تو اس سے نکاح ناجائز ہے۔ یہ بہت غلط کام ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس لڑکے کو مرتد نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس بنا پر وہ اپنے باپ کی وراثت میں اپنا حصہ پانے سے محروم نہیں ہوگا۔
کوئی مسلمان کسی وجہ سے اپنے کسی بیٹے سےناراض ہو تو اسے عاق کرکے اپنی وراثت سے محروم کردینا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ وراثت اللہ تعالی کا دیا ہوا حق ہے۔ بیٹے کی کسی نالائقی کی وجہ سے ناراضی کی بنا پر اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔