اولاد کے درمیان مال و جائیداد کی منصفانہ تقسیم

درج ذیل مسئلے میں شریعت کی روشنی میں مشورہ درکار ہے: میرے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔ اہلیہ کا انتقال بارہ سال قبل ہوچکا ہے۔ تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں ۔ لڑکیاں اپنے اپنے گھروں میں ہیں ۔ لڑکوں میں سے ہر ایک کی شادی کرکے میں نے اس کے لیے الگ رہائش فراہم کردی، جس میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ان کے لیے الگ الگ رہائش فراہم کرنے میں آراضی کی خریداری اور مکان کی تعمیر میں ، جو سرمایہ لگا اس میں سے کچھ میرا اور کچھ لڑکوں کا کمایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے لڑکوں کا فراہم کردہ سرمایہ برابر نہیں تھا۔ ہر ایک نے حسب ِ توفیق سرمایہ فراہم کیا، بعض نے کچھ بھی نہیں کیا۔ چھوٹے لڑکے کے لیے مکان کی تعمیر میں اس کے بھائیوں نے بھی مدد کی۔ لڑکوں نے باہمی رضا مندی سے یہ تقسیم منظور کرلی ہے۔ اب میرے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ تینوں لڑکیوں کا کیا ہو؟ ان کے حصے میں تو کچھ نہیں آیا۔ اگر آنا چاہیے تو کیا اور کس طرح ؟ واضح رہے کہ میری تھوڑی سی آبائی جائیداد وطن میں ہے، جو میرے بھائی کی تحویل میں ہے۔ ابھی اس کی تقسیم عمل میں نہیں آئی ہے۔ مسئلہ تقسیمِ وراثت کا نہیں ہے، بلکہ باہمی رضا مندی سے تقسیم اور منصفانہ تقسیم کا ہے، تاکہ بعد میں ان میں کوئی نزاع نہ پیدا ہو۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں اپنے مفید مشورے سے نوازیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے تمام لڑکے اور ان کی فیملی میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔
جواب

اولاد سے محبت کا جذبہ فطری طور پر ہر انسان کے دل میں ودیعت کیا گیاہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پھلیں پھولیں ، حالات ِ زمانہ کی انھیں ہوا نہ لگے، وہ خوب ترقی کریں اور عیش و آرام سے رہیں ۔ بچے چھوٹے ہوں تو ان کی کفالت اور نفقہ باپ کے ذمے لازم کیا گیا ہے۔ لڑکا بالغ ہوجائے اور لڑکی کی شادی ہوجائے تو وجوب ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس کے بعد بھی وقت ِ ضرورت ان کی مدد کرنا، انھیں سہارا دینا اور انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں تعاون کرنا شریعت کی نگاہ میں پسندیدہ ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں خوب مال و دولت سے نوازا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر مکہ میں شدید بیمار ہوگئے، یہاں تک کہ جاں بر ہونے کی امید نہ رہی۔ اللہ کے رسول ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے تو عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! میں بہت مال دار ہوں ، میرے ورثاء بھی زیادہ نہیں ، جنھیں مال کی ضرورت ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے دوتہائی مال کی وصیت کرجاؤں (ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنا پورا مال وصیت کرنے کی اجازت مانگی تھی)۔ آں حضرتﷺ نے فرمایا: نہیں ! عرض کیا: نصف مال کی وصیت کردوں ؟ فرمایا نہیں ، عرض کیا: اچھا، ایک تہائی مال کی؟ فرمایا: ہاں ، ایک تہائی بہت ہے۔ پھر آپؐ نے مزید فرمایا:
اِنَّکَ اَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، حدیث: ۱۲۹۵، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۴۲، صحیح مسلم، حدیث: ۱۶۲۸)
’’تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑجاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ غریب اور دوسروں کے محتاج ہوں ۔‘‘
اس حدیث سے فقہاء نے یہ استنباط کیا ہے کہ آدمی مرض وفات میں اپنے مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا، بہ الفاظ دیگر مرض وفات سے قبل اپنی زندگی میں وہ اپنے مال میں سے، جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہے۔ اس معاملے میں ورثاء اور غیر ورثاء کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کے مصارف اٹھانے میں تمام افراد کا حصہ ہوتا ہے، کچھ باہر کما کر رقم بھیجتے ہیں ، کچھ گھر کے معاملات دیکھتے ہیں ۔ خاندان کا سربراہ نگرانی رکھتا، معاملات کی تنظیم کرتا اور حسب ِ ضرورت خرچ کرتا ہے۔ اس لیے اس عرصے میں کسی فرد کی کمائی کو اس کے لیے خاص نہیں قرار دیا جاسکتا۔ الاَّ یہ کہ وہ رقم بھیجتے وقت اس کی صراحت کردے اور اپنے لیے کسی مخصوص کام میں خرچ کرنے کی ہدایت کرے۔
کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال جائیداد اپنی اولاد، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اسے اختیار ہے، جس کو جتنا چاہے دے دے، لیکن اس معاملے میں بہتر ہے کہ وہ منصفانہ تقسیم پیش ِ نظر رکھے، تاکہ مستحقین کی حق تلفی نہ ہواور شکایتیں اور تلخیاں نہ پیدا ہوں ۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں : میری والدہ نے میرے لیے میرے والد سے سفارش کی کہ اسے کوئی عطیہ دیجیے۔ میرے والد اس پر آمادہ ہوئے۔ (بعض روایات میں ہے کہ) انھوں نے مجھے ایک غلام دینے کا ارادہ کیا تو میری والدہ نے تاکید کی کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ معاملہ رکھ کر آپؐ کی تائید لے لیجیے۔ میرے والد مجھے اپنے ساتھ لے کر بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ﷺ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی طرح غلام دیا ہے۔ عرض کیا: نہیں ، آں حضرتﷺ نے فرمایا: تو اس کو بھی نہ دو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا بَیْنَ اَوْلاَدِکُمْ۔
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کامعاملہ کرو۔‘‘
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :
اِعْدِلُوْا بَیْنَ اَوْلاَدِکُمْ فِی الْعَطِیَّۃِ۔
’’اپنی اولاد کے درمیان عطیہ تقسیم کرنے میں انصاف سے کام لو۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپؐنے فرمایا: لاَ تُشْھِدْنِیْ عَلٰی جَوْرٍ۔ یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں کسی غلط اور غیرمنصفانہ کام کی توثیق کروں گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الھبۃ، باب الھبۃ للولد، حدیث: ۲۵۸۶، باب الاشھاد فی الھبۃ، حدیث:۲۵۸۷، کتاب الشھادات، باب لایشھد علی شھادۃ جور اذا اشھد، حدیث: ۲۶۵۰)
صحیح مسلم کی روایت میں آں حضرت ﷺ نے اس کی حکمت بھی بیان کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
اَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی الْبِرِّ سَوَائً۔
’’کیا تم کو اس سے خوشی نہ ہوگی کہ تمھارے تمام لڑکے یکساں طور پر تمھارے ساتھ حسن ِ سلوک کریں ؟‘‘
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :
اَلَیْسَ تُرِیْدُ مِنْھُمُ الْبِرَّ مِثْلَ مَا تُرِیْدُ مِنْ ذَا؟
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ تمھارے دوسرے لڑکے بھی تمھارے ساتھ اسی طرح حسن ِ سلوک کریں جس طرح یہ لڑکا کرے؟‘‘
صحابی ِ مذکور نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں ؟ تو آپؐنے فرمایا: پھر ایسا نہ کرو کہ ایک کو دو اور دوسروں کو نہ دو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الہبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد فی الھبۃ، حدیث: ۱۶۲۳)
شریعت کی نگاہ میں جس طرح لڑکوں کے درمیان تفریق مناسب نہیں ہے، اسی طرح صرف لڑکوں کو نوازنا اور لڑکیوں کو محروم رکھنا بھی درست نہیں ہے۔ حسب ضرورت اور حسب ِ توفیق لڑکیوں کا بھی ضرور حصہ لگانا چاہیے اور جس طرح وراثت میں باہمی رضا مندی سے لڑکیوں کو غیرمنقولہ جائیداد کے بدلے معاوضہ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس زیر بحث صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
آدمی کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے سعادت مند بچے ملے ہوں ، جو اس کے بڑھاپے کا سہارا بنیں ، اس کے ساتھ ہر طرح کے حسن ِ سلوک سے پیش آئیں ، اس سے جو کچھ ملے اس پر راضی ہوں اور وہ انھیں خوش و خرم، باہم شیر و شکر اور پھلتا پھولتا دیکھتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہو۔