اپنی قربانی نہ کرکے صرف مرحوم کے نام سے قربانی کرنا

میرے شوہر کا بزنس پہلے کے مقابلے کمزور ہوگیاہے۔ پہلے ساتھ حصے قربانی کے ہوا کرتے تھے تو مرحومہ ساس کابھی ہوتاتھا، لیکن دوسال سے وہ ایک بکرا میری ساس کے نام کا ہی قربان کرتے ہیں۔ کیا قربانی زندوں کے بجائے مرحوم کے نام پر کرنا درست ہے ؟

جواب

قربانی اسلام کا شعارہے۔یہ ایک اہم عبادت ہے۔ ہر سال لاکھوں مسلمان ’’حضرت ابراہیمؑ‘‘ کی سنت اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اسے انجام دیتے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اللہ ﷺ دس برس زندہ رہے۔ ہر برس آپ نے قربانی کی۔(ترمذی۱۵۰۷)آپؐ نےفرمایا:من کان لہ سعۃً ولم یضح فلا یقربنّ مصلانا(صحیح الجامع۶۲۷۳، ابن ماجہ۶۴۹۰)(صحیح الجامع۶۲۷۳، ابن ماجہ۶۴۹۰)

’’ جو شخص قربانی کر سکتا ہو،پھر بھی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے۔‘‘

اسی اہمیت کی بنا پر فقہ حنفی میں صاحبِ استطاعت کے لیے قربانی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ صاحبِ استطاعت سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہوجائے۔دوسرے ائمہ قربانی کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں۔ قربانی چھوٹے جانور مثلاً بکرا، بھیڑ، مینڈھا کی ہوسکتی ہے اور بڑے جانور مثلاً بھینس، اونٹ وغیرہ کی بھی۔ چھوٹے جانور کی قربانی کسی ایک فرد کی طرف سے ہوسکتی ہے اور بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں۔ کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی جائز ہے۔ روایت میں ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ دو جانوروں کی قربانی کرتے تھے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسری بنی ﷺ  کی طرف سے(ترمذی۱۴۵۹)۔

دوسری قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والے کی طرف سے ہوتی ہے، البتہ اس کا ثواب مرحوم کو پہنچتا ہے، اس لیے اس کے گوشت کا کچھ حصہ قربانی کرنے والا خود بھی کھا سکتا ہے اور باقی دوسروں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ چاہے وہ مال دار ہو یا غریب۔ کوئی شخص اپنی واجب قربانی کے علاوہ دوسری قربانی اپنے کسی مرحوم عزیز کی طرف سے کر سکتا ہے یا بڑے جانور میں اپنے حصے کے علاوہ کسی مرحوم یا ایک سے زائد مرحومین کے حصے لے سکتا ہے۔،لیکن یہ صورت جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی قربانی تو نہ کرے اور صرف کسی مرحوم یا مرحومہ کی طرف سے قربانی کرے۔ اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، جب کہ دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا نفل ہے۔ واجب کو چھوڑ کر نفل پر عمل کرنا دانش مندی نہیں ہے۔

June 2025