جواب
(۱)شادی کے بعد انکشاف ہو کہ شوہر نامرد ہے اور ہم بستری پر قادر نہیں ہے، تو علیٰحدگی کا معاملہ اٹھانے سے قبل اسے علاج کا موقع دیاجانا چاہیے۔ فقہا نے اس کے لیے ایک سال کی مدت متعین کی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کوئی حتمی اور قطعی مدت نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ کسی ماہر ڈاکٹر کی رائے پر ہونا چاہیے۔ اگر وہ تمام متعلقہ ٹیسٹ کرنے کے بعد ایک دو ماہ میں ہی یہ رائے دے دے کہ مرض پیدائشی ہے اور شوہر کبھی ہم بستری کے قابل نہیں ہوسکتا تو ایک سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر علاج میں ایک سال سے زائد مدت درکار ہو تو اس کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ہم بستری پر قادر نہ ہوسکنا بسا اوقات نفسیاتی اسباب سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا سبب کوئی جسمانی مرض ہوتاہے۔ نفسیاتی اسباب ہوں تو مناسب کونسلنگ (Counselling)ہونی چاہیے اور کوئی مرض ہو تو اس کا علاج ہونا چاہیے۔
(۲) علاج سے کوئی فائدہ نہ ہو، شوہر ہم بستری کے قابل نہ ہوسکے اور بیوی اس سے علیٰحدگی چاہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ علیٰحدگی کروا دینی چاہیے۔ ایسی صورت میں فقہاء نے لکھا ہے کہ عورت پورے مہر کی حق دار ہوگی اور اسے عدت بھی گزارنی ہوگی۔ بہتر ہے کہ شوہر خود ہی طلاق دے دے۔ اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو اس پر دباؤ ڈالنے کی دوسری تدابیر اختیار کی جائیں ۔ خلع کی بات بھی کی جاسکتی ہے۔
(۳) اگر بیوی اپنے شوہر کی نامردی کے باوجود اس کے ساتھ رہنے پر رضا مند ہے تو اس کی رضا مندی کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ البتہ اس چیز کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس کی رضا مندی کسی دباؤ کا نتیجہ تو نہیں ہے۔
نکاح کا مقصد مرد اور عورت دونوں کی عفت و عصمت کی حفاظت اور توالد و تناسل ہے۔ شوہر کی نامردی سے یہ دونوں مقاصد فوت ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اولاد کی خواہش ہر جوڑے کو ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر جوان مرد اور عورت میں جنسی خواہش بھی فطری ہے۔ اگر کوئی دوشیزہ اپنی ان دونوں خواہشوں کو قابو میں رکھنے پر قادر ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مصر ہو تو اس کی بات مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں شوہر اور بیوی دونوں کے خاندان والوں کو مل کر معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر، کسی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔