اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوجائیں

امسال عید الفطر جمعہ کے دن ہوئی۔ چنانچہ نماز عید کے چند گھنٹوں کے بعد جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوجائیں تو جمعہ کی نماز ساقط ہوجاتی ہے۔ بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر ہاں تو کیا ظہر کی نماز بھی ساقط ہوجائے گی یا اسے ادا کرنا ہوگا؟
جواب

عید الفطر ہفتہ کے دنوں میں سے کسی بھی دن ہوسکتی ہے، چنانچہ کچھ کچھ عرصہ کے بعد وہ جمعہ کے دن بھی ہوتی رہی ہے۔ ایسا موقع عہد ِ نبوی میں بھی پیش آیا ہے اور عہد ِ صحابہ میں بھی۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوجائیں تو آدمی کو اختیار ہے، چاہے جمعہ پڑھے یا ا س کی جگہ ظہر ادا کرلے۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے دریافت کیا: کیا عہد نبوی میں کوئی ایسا موقع آیا ہے جب عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوئے ہوں ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں ۔ حضرت معاویہؓ نے پھر سوال کیا: تب آپؐ نے کیا کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: آپؐ نے عید کی نماز ادا کی اور جمعہ کے سلسلے میں رخصت دے دی۔ آپؐ نے فرمایا:
مَنْ شَائَ اَنْ یُّصَلِّی فَلْیُصَلِّ۔
’’جو شخص نماز جمعہ پڑھنا چاہے، پڑھ لے۔‘‘ (۱)
حضرت ابو ہریرہؓ اسی طرح کے ایک موقع کا تذکرہ کرتے ہیں ، جب عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوگئے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِجْتَمَعَ فِیْ یَوْمِکُمْ ھٰذَا عِیْدَانِ، فَمَنْ شَائَ اَجْزَأہُ مِنَ الْجُمُعَۃِ وَ اِنَّا مُجَمِّعُوْنَ ۔(۲)
’’آج کے دن دو عیدیں (یعنی عید اور جمعہ) جمع ہوگئی ہیں ۔ اب تم میں سے جو شخص چاہے جمعہ کی نماز نہ پڑھے، اس کے لیے یہی (عید کی) نماز کافی ہے، لیکن ہم ضرور جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔‘‘
فقہاء (احناف، شوافع اور مالکیہ) کا مسلک یہ ہے کہ کوئی نماز کسی دوسری نماز کی جگہ کفایت نہیں کرتی۔ نماز جمعہ فرض ہے اور نماز عید سنت، لہٰذا اگر عید اور جمعہ کی نمازیں ایک دن جمع ہوجائیں تو دونوں ادا کی جائیں گی، جمعہ ترک کرنا جائز نہیں ۔ درج بالا احادیث کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ رخصت اہل مدینہ کے لیے نہیں ، بلکہ ارد گرد کے دیہاتوں سے آنے والوں کے لیے تھی، جو نماز جمعہ کے لیے بھی مدینہ آیا کرتے تھے، تاکہ انھیں عید کی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس جانے کے بعد نماز جمعہ کے لیے دوبارہ مدینہ آنے کی زحمت نہ ہو ، ان لوگوں پر ظہر کی فرضیت بہ ہر حال باقی رہتی تھی۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ امام سے جمعہ کی نماز ساقط نہیں ہوتی، دیگر افراد کے لیے رخصت ہے۔ بہ الفاظ دیگر جمعہ کی نماز باجماعت ادا کی جائے گی۔ انفرادی طور پر کوئی شخص چاہے تو رخصت سے فائدہ اٹھا سکتاہے، البتہ اسے ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
ایک روایت حضرت عطا بن ابی رباحؒ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے زمانۂ خلافت میں عید اور جمعہ ایک دن جمع ہوگئے۔ حضرت ابن زبیرؓ نے دن کے ابتدائی حصے میں عید کی نماز پڑھا دی۔ جمعہ کے وقت لوگ اکٹھا ہوئے، مگر وہ نماز پڑھانے کے لیے نہیں نکلے، بلکہ انھوں نے شام کے وقت نکل کر عصر کی نماز پڑھائی۔ اس موقع پر حضرت ابن عباسؓ طائف میں تھے۔ وہ واپس آئے تو لوگوں نے تفصیل بتا کر مسئلہ دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا: ابن زبیر نے سنت پر عمل کیا۔(۱)
اس روایت کی بنا پر امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ اگر عید اور جمعہ ایک دن جمع ہوجائیں تو عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد اس روز کسی پر نہ جمعہ فرض رہتا ہے نہ ظہر (۲) ، لیکن یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی، اس لیے کہ مذکورہ بالا روایت کی بعض سندوں میں فَصَلَّیْنَا وُحْدَانًا کے الفاظ ہیں ، یعنی راوی کہتے ہیں کہ جب ابن زبیرؓ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لیے نہیں نکلے تو ہم نے تنہا تنہا ظہرکی نماز ادا کرلی۔
بہتر یہ ہے کہ عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہوجانے کی صورت میں نماز عید بھی ادا کی جائے اور نماز جمعہ بھی۔ البتہ انفرادی طور پر کوئی شخص چاہے تو رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز جمعہ میں شریک نہ ہو اور نماز ظہر پر اکتفا کرلے۔