جواب
عام حالات میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی ان کے اوقات میں ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا یہی معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo (النساء: ۱۰۳)
’’نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی ِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘
متعدد صحابۂ کرامؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں :
’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ (کسی دوسرے وقت) میں پڑھی ہو۔ سوائے دو نمازوں کے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الحج، ۱۶۸۲)
لیکن عذر کی صورت میں بعض نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا جائے اور مغرب و عشا کو ایک ساتھ۔ رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع کے دوران اسی طریقے سے مذکورہ نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ ابن ِ تیمیہؒ فرماتے ہیں :
’’نمازوں کے اوقات عام لوگوں کے لیے پانچ اور اہلِ عذر کے لیے تین ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِط (ہود: ۱۱۴)
’’نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔‘‘
دوسرے سرے پر ظہر و عصر ہے اور رات گزرنے پر مغرب و عشا۔ اسی طرح اس کا ارشاد ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِط
(بنی اسرائیل:۷۸)
’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو۔‘‘
اس آیت میں ’دلوک‘ میں ظہر و عصر اور ’غسق‘ میں مغرب و عشاء شامل ہیں ۔ اسی اصول کو اختیار کرکے رسول اللہ ﷺ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع فرمایا تھا۔‘‘
(فتاویٰ ابن تیمیہؒ، ۲۴/۲۵)
احناف کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنا) جائز نہیں ہے۔ ہاں ان کو جمع کرنے کی ظاہری صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔ یعنی ایک نماز اس کے آخر ِ وقت میں اور دوسری نماز اس کے اولِ وقت میں پڑھی جائے۔ لیکن دیگر فقہاء اس کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک جمع تقدیم اور جمع ِ تاخیر دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں ۔ یعنی دوسری نماز کو مقدم کرکے پہلی نماز کے ساتھ پڑھ لیا جائے، یا پہلی نماز کو مؤخر کرکے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا جائے۔
عذر میں حالت ِ سفر، مرض، طوفانی بارش، خوف زدہ صورت ِ حال یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ احادیث میں ان عذروں کا ذکر آیا ہے، بل کہ حضرت ابن ِ عباسؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر مدینہ میں رہتے ہوئے ظہر و عصر کی نمازیں اور مغرب و عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔ جب کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا، نہ بارش ہوئی تھی۔ (دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا نہ آپ حالت ِ سفر میں تھے) حضرت ابن ِ عباسؓ کے شاگرد نے ان سے دریافت کیا: پھر آں حضرت ﷺ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ’’آپؐ نے ایسا اس لیے کیا تھا، تاکہ آپ کی امت کا کوئی فرد مشقت میں نہ پڑے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی السفر)
حالت ِ حضرمیں کسی عذر کی بنا پر جمع بین الصلاتین کی اجازت دینے والے فقہاء (مثلاً: مالکیہ میں سے اشہبؒ، شوافع میں سے ابن المنذرؒ اور ابن سیرینؒ و ابن شبرمہؒ وغیرہ) ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے، یعنی کسی شدید عذر کی بنا پر ہی جمع کیا جائے، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کیا جائے۔ (نووی، المجموع شرح المہذب، طبع جدہ، ۴/۲۶۴، ابن قدامہ: المغنی، طبع ریاض ۱۹۸۱ء، ۲/۲۷۸، الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت: ۱۵/۲۹۲)
آپ نے اپنی جو مخصوص صورت بیان کی ہے اس کا شمار عذر میں ہوسکتا ہے، لیکن کوشش کیجیے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے۔ اپنے افسران سے کہیے کہ وہ آپ کی علمی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو پروموشن دیں ، یا کوئی دوسرا کام لیں ، جس میں آپ کی ایسی شدید مصروفیت باقی نہ رہے۔ ورک شاپ میں آپ سے متعلق جو کام ہے، اس کی انجام دہی کے لیے آپ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہوں گے۔ آخر آپ کی بیماری یا رخصت کے دنوں میں ورک شاپ میں تالا نہ لگ جاتا ہوگا اور بسیں چلنی بند نہ ہوجاتی ہوں گی۔ ان افراد سے تعاون لیجیے۔ ان کے بعض کام آپ کردیجیے تاکہ وہ آپ کے کچھ کام اپنے ذمے لے کر آپ کو نمازوں کی ادائی کے لیے مہلت دے دیا کریں ۔ دین میں نماز کی اہمیت اور اس کے مقام سے آپ بہ خوبی واقف ہیں ، اس لیے کوشش کیجیے کہ حتی الامکان آپ کی تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں ۔