جواب
قرآن کریم میں صراحت ہے کہ ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ جس جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانا حلال نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَo وَمَالَکُمْ اَلّاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ (الانعام: ۱۱۸،۱۱۹)
’’پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اس کا گوشت کھاؤ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیزنہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟‘‘
وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌط
(الانعام: ۱۲۱)
’’اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو، اس کا گوشت نہ کھاؤ۔ ایسا کرنا فسق ہے۔‘‘
جانور کو ذبح کرتے وقت کیا الفاظ کہے جائیں ، اس کا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے۔ بس کہا گیا ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ البتہ بعض روایات میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً ایک روایت میں حضرت انسؓ ایک موقعے پر نبی ﷺ کے ذریعے دو مینڈھوں کی قربانی کا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
ذَبَحَھَا بِیَدِہٖ وَ سَمّٰی وَ کَبَّرَ۔ (بخاری: ۵۵۶۵)
’’آپؐ نے انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اللہ کا نام لیا اور اس کی بڑائی بیان کی۔‘‘
اسی طرح حضرت جابرؓ ایک قربانی کا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
’’میں ایک عید الاضحی کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ نماز اور خطبے کے بعد ایک مینڈھا آپ کے پاس لایا گیا۔ آپؐ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ فرمایا: ’بسم اللہ اللہ اکبر‘۔‘‘ (ابو داؤد: ۲۸۱۰)
اسی سے فقہاء نے مسنون طریقہ یہ بتایا ہے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر کہا جائے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسرے الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت اللہ یا صرف رحمن یا صرف رحیم کہے، یا اللہ اکبر کے بہ جائے اللہ اجل، اللہ الرحمن یا اللہ الرحیم کہے، یا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے یا سبحان اللہ کہے یا لا الہ الا اللہ، کہے، یہ تمام صورتیں درست ہیں ۔ اس لیے کہ اس سے قرآن کے حکم کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، پر عمل ہوجاتا ہے۔
ذبیحے کے حلال ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر اللہ کے علاوہ اور کسی کا نام نہ لیا گیا ہو۔ قرآن میں جن حرام چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (المائدۃ: ۳، النحل: ۱۱۵)
’’اور وہ جانور جسے اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
چناں چہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے کے ساتھ کسی بزرگ، ولی یا پیغمبر کا نام بھی لیتا ہے تو ایسا ذبیحہ حرام ہوگا۔ مثلاً وہ کہے: بسم اللہ و اسم محمد ﷺ (اللہ کے نام اسے اور محمدؐ کے نام سے) تو یہ ناجائز ہے اور ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ ذبح کرنے والے نے نادانی میں بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھنے کے بہ جائے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پڑھا۔ گویا اس نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا ہے۔ اس موقع پر محمد رسول اللہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے اور نہ اس نے یہ مراد لی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ کے نام سے جانور ذبح کر رہا ہے۔ اس لیے یہ ذبیحہ حلال ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں کہا گیا ہے:
’’اگر ذبح کرنے والا کہے: بسم اللہ، محمد رسول للہ تو ذبیحہ حلال ہے۔ اس لیے کہ اس نے دوسرے جملے کو پہلے جملے سے نہیں ملایا۔ اس لیے اس صورت میں شرک نہیں پایا گیا۔ لیکن ایسا کہنا مکروہ ہے، اس لیے کہ اس میں حرام صورت سے یک گونہ مشابہت ہوجاتی ہے۔‘‘ (علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، مطبعۃ الجمالیۃ مصر، ۱۳۲۸ھ /۱۹۱۰ء طبع اول، ۵/۴۸)
فقہ کی کتابوں میں ذبح کی شرائط اور آداب کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ سلاٹر ہاؤس کے ملازمین کو اس سلسلے کی موٹی موٹی باتیں ضرور بتا دینی چاہییں ۔ اصولی طور سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شریعت میں عبادت، دعا اور ذکر وغیرہ کے مواقع پر توحید کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور ان میں تنہا اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی شریک نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسی صورتوں سے بچنا چاہیے، جن میں شرک کی بو آنے لگے اور توحید کا عقیدۂ صافی گدلا ہوجائے۔