جواب
قرآن کریم میں ’اہلِ کتاب‘ کی اصطلاح یہود اور نصاریٰ کے لیے مخصوص ہے ۔ یوں تو قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے مختلف زمانوں میں اور مختلف قوموں میں اپنے برگزیدہ بندے بھیجے ، جنھوں نے ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرایا ۔‘‘ (الرعد۷، فاطر۲۴) لیکن مختلف قوموں کی برگزیدہ شخصیات کو قطعی طور پراللہ کے پیغمبر کہا جا سکتا ہے نہ ان کی مذہبی کتابوں کو آسمانی اور الہامی کتابوں میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان میں انسانی آبادی کا سراغ کئی ہزار برس قبل ملتا ہے اور یہاں کی تہذیب کو قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ اس کا امکان ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہوں اور ان پر اپنی کتابیں نازل کی ہوں ۔ لیکن یہ امکان ہی کی حد تک ہے ، قطعی طور پر یہ بات نہیں کہی جا سکتی ۔ اسی بنا پر بعض علما ، مثلاً قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ (تفسیر مظہری۵؍۲۴۰) اور مولانا ابوالکلام آزادؒ (جامع الشواہد ص ۵۳-۵۵) نے ہندوؤں کے لیے ’شبہ اہلِ کتاب‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔
بہر حال کسی قوم کواسلام کی دعوت دینے کے لیے یہ نظریہ پیش کرنا ضروری نہیں کہ اس کے ’پُوروَجوں ‘ (بزرگوں ) اور اس کی مقدس کتابوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور نہ اس قوم کو اسلام سے قریب کرنے اور اس میں اپنائیت کا جذبہ بے دار کرنے کے لیے اس کی برگزیدہ شخصیات اور مذہبی کتابوں کو الہامی تسلیم کرنا ضروری ہے ۔
کسی قوم کو صحیح عقائد کی طرف لانے کے لیے دعوت کا یہ منہج اختیار کرنا انتہائی خطرناک ہے کہ اس کے سامنے صرف اسی کی مذہبی کتابوں کے حوالے دیے جائیں اور قرآن مجید کو مطلق استعمال نہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ یہ کتابیں حق اور باطل کا ملغوبہ ہیں ۔ ضروری ہے کہ اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے قرآن مجید کو بنیاد بنایا جائے اور توحید ، رسالت ، آخرت اور اسلام کی بنیای قدروں کا تذکرہ قرآن مجید کے حوالے سے کیا جائے ، البتہ اُن کتابوں میں قرآن مجید کے مماثل جو باتیں موجود ہوں انھیں تقریبِ فہم کے لیے بیان کیا جا سکتا ہے ۔