ایک حدیث کا صحیح مفہوم

صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے: ’’اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کردے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے، پھر اللہ سے استغفار کریں گے تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔‘‘ اس حدیث کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ گناہ کرنے پر ابھارا جا رہا ہے، گناہ سے بچے رہنا کوئی خوبی نہیں ہے، بل کہ گناہ کا ارتکاب کرنا پسندیدہ ہے۔ بہ راہ کرم اس حدیث کا صحیح مفہوم واضح فرمادیں ۔
جواب

صحیح مسلم کی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْلَمْ تُذْنِبُوا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَ لَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ، فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُ لَھُمْ ۔(۲)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ اگر تم نے گناہ نہ کیا تو اللہ تمھیں فنا کردے گا اور ایسے لوگوں کو لائے گا جن سے گناہ سرزد ہوں گے تو وہ اللہ سے مغفرت طلب کریں گے اور اللہ ان کی مغفرت قبول کرلے گا۔‘‘
امام مسلمؒ نے اس مضمون کی کئی احادیث روایت کی ہیں ۔ کسی حدیث کا مفہوم متعین کرنے کے لیے صرف اس کے ظاہری معنی پر اکتفا کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ پورے ذخیرۂ احادیث اور دین کی مجموعی تعلیمات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ زیر بحث موضوع پر دو پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱- قرآن و حدیث میں گناہ کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار نصوص ہیں ۔ اس لیے کوئی ایسا مفہوم قابل قبول نہیں ہوسکتا، جس سے گناہ کا ارتکاب کرنے کی ترغیب کا پہلو نکلتا ہو۔
۲- انسان کے اندر فطری طور پر خیر اور شر دونوں کی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ۔ اسی میں اس کا امتحان ہے۔ اگر اس سے گناہ کا صدور ہونے کا امکان ہی نہ ہوتا تب تو وہ فرشتہ بن جاتا۔ انسان کی خوبی اور اس کا امتیاز اس بات میں ہے کہ اگر اس سے کبھی شیطان یا نفس کے بہکاوے میں آکر کسی گناہ کا صدور ہوجائے تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹے اور اس سے معافی مانگے۔
ان دونوں باتوں کی روشنی میں مذکورہ بالا حدیث کا یہ مفہوم متعین ہوتا ہے کہ اس میں گناہ کا ارتکاب کرنے کی صورت میں توبہ و استغفار پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں گناہ گار بندوں کے لیے تسلی کا سامان ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ان سے خواہ بڑے سے بڑے گناہ کا صدور ہوگیا ہو، لیکن اگر وہ بارگاہِ الٰہی میں سر بہ سجود ہوکر اس سے مغفرت طلب کریں گے تو وہ ضرور انھیں معاف کردے گا۔
قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی اس حدیث کا مفہوم متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo (الزمر: ۵۳)
’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے۔‘‘
محدثین کرام نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ مولانا محمد تقی عثمانیؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
’’اس حدیث میں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے والے لوگوں کے لیے تسلی ہے کہ ان کے توبہ و استغفار کرنے سے ان کے گناہ دھل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بے خوف و خطر گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انھیں حرام قرار دیا ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کبھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بلکہ اس سے مغفرت طلب کرے۔ اس کا استغفار اس کے گناہ کے لیے کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (۱)