جواب
یہ روایت علامہ جلال الدین سیوطی (م۹۱۱ھ) کی کتاب الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر میں موجود ہے (روایت نمبر ۴۸۱۸) اس مضمون کی اور بھی کئی روایتیں مذکورہ کتاب میں ہیں ۔ یہ روایتیں اس کے علاوہ بیہقی کی کتابوں السنن الکبریٰ اور شعب الایمان، دیلمی کی مسند الفردوس اور دیگر کتابوں میں بھی مروی ہیں ، لیکن یہ سب ضعیف ہیں ۔ آپ نے جو روایت درج کی ہے اس کی سند میں ایک راوی محمد بن یونس القرشی ہے۔ اس کے بارے میں ناقد حدیث ابن عدیؒ نے لکھا ہے کہ وہ حدیثیں گھڑ کر پیش کیا کرتا تھا۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں : وہ حدیثیں گھڑ کر ثقہ لوگوں کی جانب منسوب کردیتا تھا۔ علامہ ذہبی نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب الضعفاء میں کیا ہے۔ (۲) علامہ البانیؒ نے الجامع الصغیر کی صحیح اور غیر صحیح (ضعیف و موضوع وغیرہ) احادیث کو الگ الگ چھانٹ دیا ہے۔ انھوں نے اس روایت کو ضعیف الجامع الصغیر میں جگہ دی ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے۔