ایک فرقہ کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، بقیہ لوگ جہنمی ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث پڑھ کر میں بہت تشویش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ کیا امت کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور صرف چند لوگ جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہاں ایک مولانا صاحب سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ حدیث کا اتنا حصہ تو صحیح ہے جس میں امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی بات کہی گئی ہے۔ لیکن اس کا اگلا حصہ جس میں صرف ایک فرقے کے جنتی اور دیگر فرقوں کے جہنمی ہونے کی بات کہی گئی ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ جن روایتوں میں یہ الفاظ ہیں ان کی سندیں ضعیف ہیں ۔ بہ راہِ کرم اس کی وضاحت فرما دیں ۔ کیا مولانا صاحب کی بات صحیح ہے؟
جواب

اس مضمون کی حدیث متعدد صحابۂ کرامؓ سے مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِفْتَرَقَتِ الیَھُوْدُ عَلٰی اِحْدٰی اَوْ اِثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَ تَفَرَّقَتِ النَّصَارَیٰ عَلٰی اِحْدٰی وَاثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَ تَفَرَّقُ اُمَّتِی عَلٰی ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃً۔
’’یہود اکہتر، بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ اسی طرح نصاریٰ بھی اکہتر بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔‘‘
یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، ۴۵۹۶)، جامع ترمذی (ابواب الایمان، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ، ۲۶۴۰)، سنن ابن ِ ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم،۳۹۹۱) اور مسند احمد (۲/۳۳۳) میں مروی ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ نیز فرمایا ہے کہ اس مضمون کی حدیث حضرت سعد ؓ، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اور حضرت عوف بن مالکؓ سے بھی مروی ہے۔ (و فی الباب عن سعد و عبد اللہ بن عمرو و عوف بن مالک)
بعض دیگر صحابۂ کرامؓ سے مروی احادیث میں کچھ اضافہ ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل دی جا رہی ہے:
حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آگے یہ بھی فرمایا:
ثِنَتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ ھِیَ الجَمَاعَۃِ۔
’’بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔ اور وہ الجماعۃ میں ہوگا۔‘‘
یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، ۴۵۹۷) اور سنن الدارمی (کتاب السیر، باب فی افتراق ھذہ الامۃ، ۲۵۱۸) میں آئی ہے۔ عصر ِ حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع،۲ /۳۷۵)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی حدیث میں اضافے کے الفاظ یہ ہیں :
کُلُّھَا فِی النَّارِ اِلّاَ وَاحِدَۃٌ وَ ھِیَ الجَمَاعَۃِ۔
’’تمام فرقے جہنمی ہیں ، سوائے ایک کے اور وہ الجماعۃ ہے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابن ِ ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم، ۳۹۹۳) اور مسند احمد (۳/۱۲۰) میں آئی ہے۔ محدث بوصیریؒ کہتے ہیں : ھٰذا اسناد صحیح رجالہ ثقات (اس کی سند صحیح ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں )۔ علامہ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عوف بن مالکؓ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ ثِنَتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ ھُمْ؟ قَالَ الْجَمَاعَۃُ۔
’’ایک گروہ جنت میں جائے گا اور بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا: وہ کون لوگ ہوں گے (جو جنت میں جائیں گے) آپؐ فرمایا: الجماعۃ۔‘‘
یہ حدیث بھی سنن ابن ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم، ۳۹۹۲) میں آئی ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی (راشد بن سعد) پر کچھ کلام کیا گیا ہے، لیکن ابو حاتم نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سچے ہیں ۔ ایک دوسرے راوی عباد بن یوسف ہیں ۔ ان سے صرف ابن ِ ماجہ نے تخریج کی ہے اور وہ بھی صرف یہی حدیث۔ ابن عدی کہتے ہیں : بہت سی روایات میں یہ منفرد ہیں ۔ لیکن ابن ِ حبان نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے۔ اس سند کے دیگر تمام راو ی ثقہ ہیں ۔ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی حدیث ِ نبوی میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلّاَ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، قَالُوا: وَ مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ أصْحَابِی۔
’’سب جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک گروہ کے ، صحابہؓ نے عرض کیا: وہ کون گروہ ہوگا، اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب چل رہے ہیں ۔‘‘
اس کی روایت امام ترمذی (ابواب الایمان، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ، ۲۶۴۱) نے کی ہے۔ اور کہا ہے: ھٰذا حدیث حسن غریب مفسر لا نعرفہ مثل ھٰذا الا من ھذا الوجہ۔ اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی ضعیف ہے، لیکن دیگر شاہد روایتوں کی وجہ سے مشہور محدثین علامہ البانی اور علامہ عبد القادر الارناوؤط نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے الجماعۃ کی تشریح ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ جن روایتوں میں اضافہ ہے وہ بھی صحیح ہیں ۔ انھیں ضعیف کہہ کر اضافے کو رد کرنا مناسب نہیں ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کے تہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بقیہ بہتر فرقے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے، وہ کبھی جنت میں نہ جاسکیں گے۔ کسی کے جنتی ہونے کے دو مفہوم ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے گا اور ابتدا ہی میں جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ وہ جہنم میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائے گا۔ اسی طرح کسی کے جہنمی ہونے کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے ابتدا ہی میں جہنم میں داخل کیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور دوسرا یہ کہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا، بعد میں اس سے نکال کر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اس حدیث میں جس گروہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے وہ پہلے مفہوم میں ہے اور دیگر جن گروہوں کے جہنم میں جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے مفہوم میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اس کے بعد انھیں بھی جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ حدیث میں تمام گروہوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے امتی (میری امت) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ خطابی شارح سنن ابی داؤد فرماتے ہیں :
فِیْہِ دَلاَلَۃٌ عَلٰی أنَّ ھٰذِہِ الْفِرَقَ کُلَّھَا غَیْرُ خَارِجَۃٍ عَنِ الدِّیْنِ اِذْ قَدْ جَعَلَھُمُ النَّبِیُّ ﷺ کُلَّھُمْ مِّنْ اُمَّتِہٖ۔ (معالم السنن، المطبعۃ العلمیۃ حلب، شام، ۱۹۳۳، ۴/۲۹۵)
’’اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں ، اس لیے کہ نبی ﷺ نے سب کو اپنی امت میں شامل کیا ہے۔‘‘
مولانا سید احمد عروج قادری نے اس حدیث کے سلسلے میں بعض اشکالات کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی اچھی تشریح کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے احکام و مسائل، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جلد اول، ص: ۱۳۷- ۱۴۱